تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کا عمومی نقطۂ نظر قیام امن رہا ہے کیونکہ اسلام نام ہی ہے پیار،امن ،شفقت اورمحبت کا ۔
اس لئےدنیا کی تاریخ میں مسلمانوں نے نظامِ امن و سکون قائم کرنے کی ہر دور میں سعی و جہد کی ہے۔اگرچہ اسلام طاقت اور فوجی اقدامات کو بالائے طاق رکھ کر امن کا خواہشمند ہے ،البتہ جب قیام امن کے سارے راستے مسدود ہو جائیں تو پھر ترجیحاتی بنیادوں پر اس کو آخری مہرے کے طور پر استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔ظاہر ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس نےانسان کی تمام سرگرمیوںکو اچھے اور صحت مندانداز سے گذارنے کا درس دیاہےاور انسان کے جملہ شعبہ جات میں رہنمائی کرتا ہے ۔ اس میں ایک طرف جہاں ہمیں توحید،نماز،روزہ ، قربانی ،حج اور زکوۃ کے حوالے سے رہنما اصول ملتے ہیں وہیں دوسری طرف سیاسی ، معاشرتی ، معاشی ، مادّی ، اخلاقی ، نجی،قومی اور بین الاقوامی سطح تک کی رہنمائی بھی ملتی ہے۔ جب ہم اسلام اورامن و آشتی کی بات کرتے ہیںتو دیگر شعبہ جات کی طرح ہی زندگی کے اس جزوِ لاینفک کے حوالے سے بھی یکساںرہبری ملتی ہے۔ چنانچہ جو شخص دین ِ اسلام کی تعلیمات پرعمل پیرا ہو،صفتِ ایمانی سے متصف ہو اور قلب و باطن سے اللہ اور رسولؐ کے متعلق ادنیٰ درجہ کے شک سے پاک ہو تواس کو مومن کہتے ہیں۔ امن قائم کرنا ، باہمی پر امن ماحول میں رہنا، امن کا حصول ، نجات ، اچھائی اور راحت یہ سب اسلام کے معنی میں داخل ہیںاور اس کی تعلیمات دنیاوی و اُخروی انتظام و انصرام چلانے کے اعتبار سے ہدایت کے سرچشمے ہیں۔ اس میںتن،من اوردھن کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ امن ، سلامتی، دوستی ، تعاون ، اخوت ، بھائی چارہ،عدل اور خوبی کے جذبے کے تحت معاشرے کی تعمیر کرنا بھی شامل ہے۔ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ تمام انسانیت کو سلامتی حاصل کرنی چاہئے یعنی امن کے اصولوں کے تحت زندگی گذارنی چاہیے ۔کتنے ہی کٹھن حالات کیوں نہ ہو حقیقی مسلمان سیدھے راستے سے راہِ فرار اختیار نہیں کرتا بلکہ چٹان کی طرح اپنے سچےموقف پر ڈٹا رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان وفادار ، دیانتدار اور انصاف پسند ہوتا ہے اور اپنے دین کی مکمل طور پر پابندی اور سچائی و دیانت کے لیے اپنی زندگی بھی قربان کر دیتا ہے۔ اعتدال پسندانہ طرز زندگی اپناتا ہےاور سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے۔گویا حق کے راستے پر رہنا کسی بھی مومن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول و ضوابط اور اُس کے پیغمبرکے ہدایات کو اپنے لیے نمونہ سمجھیں اور کسی بھی معاملے میں حد سے تجاوز نہ کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ صریح رحمت اور شفقت کا مظاہرہ کریںاور کبھی بھی گھمنڈ،تکبر اور عداوت سے کام نہ لیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت دنیاکے بیشتر حصوں میںامن کی جگہ خونریزی،بربریت ،لوٹ کھسوٹ،قتل و غارت گری اور تانا شاہی کا بازار گرم ہے۔اندھے پن کے اس روگ کی وجہ سے حق اور ناحق کے درمیان تمیز ختم ہوگئی ہےاور چنگیزیت کےراج نے انسانوں کے لیے جیتے جی اس دنیا کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لہٰذا ، بنیادی طور پر امن اور درسِ مساوات ایک ایسی پیش رفت ہے جو انسانیت کو جارحیت اور ظلم سے پاک کرتی ہے اور انہیں سایۂ رحمت میں لاتی ہے۔ اسی لئےاسلام نے صلح کے ذریعہ اختلاف ِ رائے کو ختم کرنے کے احکامات و ہدایات تفویض کرکے تنازعات ، لڑائیوں ، اُلجھنوں کودور کرنے کا حکم دیا اور لوگوں سے کہا گیا ہےکہ وہ متوازن طرز عمل اختیار کریں اور صلح کی تلاش کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم سب اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلیںاور ایک متحدہ معاشرے کو تشکیل دیں،ہر سطح پر اور ہر معاملے میںایک دوسرے کے ہمدرد اور خیر خواہ بننے کی کوشش کریںتاکہ نجی،معاشرتی اور قومی سطح پر امن اور مفاہمت کی کوششوں کو فروغ مل سکے۔جس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر نیکی اور خوبی اپنانے کے قابل بنیں،کسی کی خوبیوں کی تعریف میں اپنا وقت بربادنہ کریں بلکہ اُس کی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کریں کیونکہ ہمدردی ط خیر خواہی ہی خوبیوں کی ماں ہے۔
ہمدردی وخیر خواہی خوبیوں کی ماں ہے
