خدشہ ہے 50برس بعد وادی کے میدانی علاقوں میںکوئی برف باری نہیں ہو گی:شکیل رومشو
اشفاق سعید
سرینگر //جموں وکشمیر کے حسن کو نگل رہی گلوبل وارمنگ کو طویل مدتی مسئلہ قرار دیتے ہوئے ماہرین نے خبردار کیا کہ سرکار نے ہوش کے ناخن نہ لئے، تو مستقبل میں اس کے سنگین نتایج بھگتنے ہوں گے ۔گذشتہ 30برسوں سے ماہر ارضیات سرکار کی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے طویل مدتی منصوبوں کی تشکیل میں عدم توجہی کی طرف توجہ مبذول کرارہے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح ندی نالوں اور دیگر آبی زخائر میں پانی کی سطح کم ہوئی ہے اور گلیشیرو ںکے بھی مزید سکڑنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں ، اس کا امکان پہلے ہی ظاہر کیا گیا تھا، کہ اسکے برے اثرات مرتب ہونگے اور اب اسی قسم کی صورتحال آہستہ آہستہ پیدا ہورہی ہے۔ لیکن ماہرین کے ریسرچ اور انکی تجاویز پر کوئی بھی توجہ نہیں دی گئی ہے اور نہ مستقبل کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے ۔ وادی میں ندی نالے اور چشمے سوکھ گئے ہیں، متعدد علاقوں میں پانی نہیں، یہاں پانی زخیرہ کرنے کا کوئی نظام نہیںاور نہ سرکار کے پاس ایسے کوئی اعداد وشمار موجود ہیں کہ زمین کے نیچے سے ہم کتنا پانی حاصل کر سکتے ہیں ۔ معروف ماہر ارضیات اور اسلامک یونیورسٹی اونتی پورہ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شکیل رومشو نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ماحولیات کے تحفظ کیلئے اقدامات گلوبل سطح پر کئے جا سکتے ہیں، لیکن ہمیں ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جو لوگوں کیلئے سودمند ہو ۔انہوںنے کہا کہ ماضی میں 2سے3فٹ برف عمومی طور پر جنوری فروری یا چلہ کلاں کے موسم میں پڑتی تھی۔
ابھی حالت ایسی ہے کہ پچھلے30 برسوں سے بہت کم برف باری ہورہی ہے اور درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔انہوں نے کہا ’’ آج سے کچھ سال قبل میں نے ایک ریسرچ کے دوران یہ کہا تھا کہ مستقبل میں گلمرگ میں ونٹر سپورٹس نہیں ہوں گے، جب ہم نے لکھا تو اس وقت کسی نے دھیان نہیں دیا اور نہ پڑھا اور آج ہم اس کا اثر دیکھ رہے ہیں‘‘ ۔انہوں نے کہا ’’ گلوبل ورمنگ کا اثردھیرے دھیرے پڑتا ہے اور خدشہ ہے کہ 50برس بعد سرینگر میں برف باری ہی نہیں ہو گی اور لوگ برف دیکھنے کیلئے گلمرگ ،پہلگام اور دیگر پہاڑی علاقوں کا رخ کریں گے‘‘ ۔ڈاکٹرشکیل رومشو نے گلیشیروںکے پگلنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں اس کا اثر معیشت کے ہر شعبہ پر پڑے گا۔شکیل رومشو کی سربراہی میں ڈاکٹرخالد عمرمرتضیٰ اور دیگر سائنسدانوں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ایشیاء کے سب سے بڑا گلیشیئرکولہائی میں ہر سال0.98میٹر کی کمی آتی ہے جبکہ ہوکسر گلیشیئر بھی ہر سال 0.93میٹر سکڑ جاتا ہے ۔ان گلیشیئروں کی ہیت جاننے والے ایک ماہر سائنسدان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سال 2013سے لگاتار ہم ان گلیشیئروں پر تحقیق کیلئے جاتے ہیں اور ہم نے یہ پایا ہے کہ یہ گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور ان میں کمی آنا مستقبل کیلئے انتہائی پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے۔2020 میںبھی شکیل رومشو اور ان کی تحقیقی ٹیم کی جانب سے خطے میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق سے پتہ چلا کہ ہمالیائی علاقے میں 1,200سے زیادہ گلیشیرز میںسال 2000اور 2012کے درمیان اوسطاً 35سینٹی میٹر کی سالانہ کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ تحقیق جموں،کشمیر اور لداخ کے خطوں میں کی گئی، جس میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے اس پار کے علاقے بھی تمام 12,243 گلیشیروں کی موٹائی کا مطالعہ کیا گیا۔اس تحقیق میں یہ پتہ چلا تھا کہ ہمالیائی خطے کے پیر پنجال سلسلے میں گلیشیرفی سال ایک میٹر سے زیادہ پگھل رہے ہیں ، جبکہ قراقرم سلسلے میں فی سال 10سنٹی میٹر گلیشیرنسبتاً کم رفتار سے پگھل رہے ہیں۔ ماہر ارضیات ڈاکٹر ایاز محمود نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ گلوبل وارمنگ طویل مدتی مسئلہ ہے اور سرکاری سطح پر اس سے اگرچہ نپٹا نہیں جاسکتا لیکن اس کے اثرات کے متعلق منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں جموں وکشمیر کی ٹوپوگرافی مختلف ہے ،یہاں قدرتی طور موسم تبدیل ہوتا تھا ،لیکن گذشتہ کئی برسوں سے جموں وکشمیر میں موسم نے اپنے مزاج تبدیل کئے ہیں جو مستقبل میں ہمارے لئے پریشانی کا سبب بنیں گے۔ ایاز محمود نے کہا کہ کچھ ایک ماہرین اس کو’ ال نینو‘ کے ساتھ جوڑ رہے ہیں ،جو بحرالکاہل میں درجہ حرارت کے فرق کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور ان کے اثرات دنیا بھر کے موسمی حالات پر پڑتے ہیں ،لیکن جو بھی ہو، یہ سب گلوبل وارمنگ کا ہی اثر ہے جس کیلئے ہمیں تیار رہنا ہے ۔پانی کی قلت پر بات کرتے ہوئے ایاز نے کہا کہ مستقبل میں ذراعت ، باغبانی اور اریگیشن اینڈ فلڈ کنٹرول سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ ہمارے پاس گرائونڈ واٹر کی صورتحال کیا ہے اور کتنی سطح پر پانی ہے ،ہمارے پاس یہ منصوبہ بھی ہونا چاہئے کہ ہم گلیشیروں سے کتنا پانی لے سکتے ہیں اور گرائونڈ سے کتنا، ہمیں سیلاب اور گرم موسم کیلئے تیار رہنا ہو گا ۔چیف انجینئر پی ایچ ای کشمیر سنجیو ملہوترہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہم ندی نالوں سے ڈریجنگ کے ذریعے پانی نکال کر لوگوں کو دے رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سرفیس پانی میں قلت ہوئی ہے البتہ گرائونڈ واٹر میں کوئی قلت نہیں ہے ۔تاہم انہوں نے کہا کہ اگر بارشیں نہیں ہوئیں تو صورتحال سنگین ہو سکتی ہے ۔انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ پانی کا بہت کم استعمال کریں ۔