معراج زرگر
الیکزینڈر نِکس نے کیا خوب کہا ہے۔’’کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں اور ناکامی ہمیشہ یتیم ہوتی ہے۔‘‘
نییٹ امیدواروں کی کامیابی کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بوال شروع ہوچکا ہے، اور ہر کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا،شیدا حمیدا مائیک اٹھائے دندناتا پھر رہا ہے۔ اور کسی کڑک مجسٹریٹ کی طرح بغیر وارنٹ کے کامیاب امیدواروں کے گھروں میں گھس رہے ہیں اور اول فول سوالات کی یلغار سے اودھم مچا رکھی ہے۔ کہیں کوچنگ سینٹر والے کرا رہے ہیں اور کہیں اسکول والے۔ کہیں گھروالے خود اور کہیں محلہ کمیٹی۔ کہیں سیاسی کارکنان اور کہیں سماج کے ٹھیکیدار۔ مطلب ہر کوئی اپنا حصہ بحیثیت ایک ’’باپ ‘‘کے ڈال رہا ہے۔ اس بات سے صرفِ نظر کہ کامیاب امیدوار نے کن حالات اور کن مشکلات سے گذر کر اس منزل کو پایا، اور ناکام امیدواروں کے دلوں پر کیا بیت رہی ہے۔
ہر ایک کامیاب امیدوار مسلسل کئی سالوں کی محنت سے اور اپنے آرام و سکون کو خیر باد کہہ کر سرخرو ہوا ہے۔ سارے امیدواران چاہے وہ مالی لحاظ سے اچھے ہوں یا ان کے گھریلو حالات نا گفتہ بہ ہوں،سب نے اپنا خون پسینہ بہاکر کامیابی حاصل کی ہے۔ نییٹ کوئی آسان امتحان نہیں ہوتا۔ یہ بندے کی جان کھینچتا ہے اور ہزاروں بچے اس دوڑ میں ہار جاتے ہیں۔ اور ان کی زندگیاں اجیرن بن جاتی ہیں۔
ہمارے ترال میں کامیاب امیدواروں میں ذاتی طور کچھ امیدواروں سے میں واقف ہوں ،جنھوں نے انتہائی مشکل ترین حالات میں اور خود کو پُر پیچ اور تھکا دینے والے مرحلوں سے گذار کر کامیابی حاصل کی ہے اور اب بھی یہ نہیں معلوم کہ کاؤنسلنگ کے دوران کس کو کیا ملتا ہے اور میریٹ کے حساب سے کون کہاں پہ پہنچتا ہے۔ میں ایک ایسے بچے سے چھ سال سے واقف ہوں ،جس نے انتہائی خراب گھریلو حالات میں خود کو ثابت قدم رکھا اور کامیاب ہوا۔ اس بچے کے والد کی انگلیوں پہ اس وقت بھی سخت ترین مزدوری سے پڑے ہوئے چھالے اور زخم اب بھی موجود ہیں۔
ایک اور امیدوار نے لگاتار تین سال ہمت نہیں ہاری۔ اس کے والد بھی ایک معمولی کام کرتے ہیں۔ پچھلے سال ایک دفتر میں ایک سند کے سلسلے میں وہ امیدوار آنکھوں سے خون ہار رہی تھی اور آفیسر کے سامنے منت کر رہی تھی کہ اس کی کوئی مدد کی جائے۔ میں نے اتنا ٹوٹا ہوا اور تڑپتا ہوا کسی کو آج تک نہیں دیکھا۔ آج وہ بغیر سند کے اپنے بل بوتے پر کامیاب ہے اور عین ممکن ہے کہ انٹرویو والے آج اس کا مسکراتا چہرہ سامنے لے آئیں، جس کے پیچھے مسلسل اور تھکا دینے والا درد،محنت ،تڑپ ،لاچارگی اور بے بسی ہے۔
ایک اور امیدوار کا باپ ایک معمولی انسان ہے لیکن بڑی محنت سے اسکالرشپ پہ اپنی بچی کو پڑھایا۔ اور اس بچی نے پہلی ہی جست میں کامیابی حاصل کی۔ میں نے آج تک اتنا یقین ایک غریب کی بیٹی میں بہت کم دیکھا ہے۔ ایک اور قوم کی ہماری بیٹی نے بھی مشکل ترین حالات میں اسکالرشپ لیکر کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح امام صاحب کے گھر میں سارے لوگ جا رہے ہیں لیکن کیا کسی نے پچھلے کئی سال میں امام صاحب سے پوچھا ہوگا کہ آپ کیسے گذارا کر لیتے ہیں۔
آج خوشی کا دن بھی ہے اور ہزاروں بچوں اور بچیوں کے لئے غم اندوہ ،درد،کسک اور رسوائی کا بھی دن ہے۔ ایک بچہ رنگ سازی کا کام کرکے کامیاب ہوا ہے اور اب رسوا ہو رہا ہے۔ سارے کے سارے مائیک والے اور کیمرے والے اس غیرت مند نوجوان کی غیرت کا جنازہ نکال رہے ہیں کہ رنگ سازی کر رہا تھا۔ کیا کسی کو کسی نے یہ حق دیا ہے کہ اس کی چاہت کے بغیر وہ یہ بیانیہ سر عام پھیلا دیں۔
ایک ہمارے علاقے کے گاؤں سے ایک بچے نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اور فیس بک پر اس کے گاؤں کو انٹیلیک چیولز کی سرزمین کہا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ اس سرزمین کو اقبال کی نم مٹی سے تعبیر کر رہے ہیں اور کچھ لوگ ’’گریٹ‘‘، “دی گریٹ” اور ’’ونڈرفل‘‘ لکھ کر تھکتے نہیں۔ تبصرے کرنا اور واہ واہ بٹورنا کتنا آسان ہوتا ہے۔ کسی کا درد تھامنا کتنا مشکل کام ہے۔
مجھے ایک دوست نے ابھی بتایا کہ ایک کامیاب امیدوار کی ماں نے اپنے ایک رشتہ دار سے کہا کہ چینل والے ہمارے گھر کیوں نہیں آئے؟ میرے بیٹے کا انٹرویو کیوں نہیں ہوا۔میں اپنے رشتے داروں کو کون سا منہ دکھاؤں گی ؟ اس نے یہ بھی کہا کہ اس عورت نے یہ تک بتایا کہ وہ چینل والوں کو پیسے دے گی، مگر وہ انٹرویو کریں۔ جب کہ اس کا بیٹا اس بات کو لیکر ناراض ہے، مگر ماں ایک بھی نہیں سن رہی ہے۔
کامیاب بچوں کو مبارک باد دیجئے۔ پھول مالائیں پہنائیں۔ وہ اس کے بالکل مستحق ہیں۔ مگر اپنی روایات ،تہذیب اور کسی غریب کی عزت نفس پر ہاتھ نہ ڈالئے۔ سینکڑوں بچوں کے اپنی کامیابیوں کے ساتھ تلخ تجربات پیوستہ ہیں۔ غریب کامیاب امیدواروں کا آگے کا سفر اور بھی مشکل ہے۔ کسی کے پاس فیس تو کسی کے پاس کتابوں کے پیسے نہیں ہوتے اور جو ناکام ہوئے ہیں ان کے دامن تر ہیں۔ ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا سماج میں رہ رہے انسانوں کی ذمہ داری ہے۔
خوشیوں کا ریلہ آناً فاناً گذر جاتا ہے، غم کی پھوار دائمی ہے۔ ہزاروں انسانوں کو ہماری ضرورت ہے۔ ہزاروں بچے اس وقت خاموشی اور تنہائی میں خود سے لڑ رہے ہیں۔ چند مارکس کی کمی کی وجہ سے ان کی خوشیاں ان سے روٹھ گئی ہیں اور عین ممکن ہے کہ کئی بچے یہ صدمہ بھی برداشت نہ کر پائیں۔ کامیابی اور ناکامی کے معیار کو میڈیکل کی سیٹ نکالنے سے مشروط نہ کریں۔ اپنے بچوں اور اپنی نسل پہ رحم کھائیے۔ ہمارے بچے ایک نازک موڈ پہ کھڑے ہیں اور ہم بحیثیت والدین ،بھائی بہن ،اساتذہ ایک زہریلا کمچہ یا کوڈا لئے ان کے سروں پر کسی ظالم کی طرح کھڑے ہیں۔ اپنے بچوں کو ایک ایسی اندھی سرنگ کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ جس کے آگے محرومی اور ناکامی کی گہری کھائی کے سواء کچھ نہیں۔
گیارہ سو بچوں کو مبارک باد۔ 39 ہزار ناکام بچوں کے درد کا درماں کیجئے۔ پیسہ ،وقت ،عزت سب کچھ داؤ پہ لگا کے بھی آج سوسائٹی کے قائم کردہ ایک وحشی معیار پر پورے نہیں اترے ہیں۔ رحم کیجئے بے چاروں پہ۔
<[email protected]