عالیہ شمیم
معاشرے پر اقدار و روایات کے حوالے سے آنے والی تبدیلی اور بدلتے سماجی رویے اثر انداز ہوتے رہتےہیں۔ معاشرے سے محبت امید اور عمل ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری نو جوان اولاد خصوصا ًاپنے خلق،مزاج اور سیرت کے حوالے سے بد ترین رویوں کا شکار ہیں۔ انسانی زندگی کےچار عوامل ہیں جوعمر کے ہر حصے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یعنی جسمانی ،روحانی ، سماجی و تخلیقی۔
اپنے جسم کو مستعد و چاق چوبند رکھنے کے لیے متوازن و صحت مند غذا اور ورزش بہت ضروری ہے، جو سستی و کاہلی کو ختم کرتی ہے ۔ ہمارےجسم کو قدرت نے نقل و حرکت اور کام کاج کے لئےبنایا ہے ۔متحرک و ورزشی جسم ہی صحت مند ذہن کو تشکیل دیتا ہے لیکن آج کل کے بیشترنوجوانوں میں سستی و کاہلی نے ڈیرے ڈال کر ان کی ا مید و بڑھتی اُمنگ ختم کر کے جمود کا شکار بنا دیا ہے۔نئی نسل کا پیدل چلنا ،ورزش کرنا کم ہو گیا ہے ،ان کا انحصار اب پیدل چلنے کے بجائے گاڑی ، موٹر سائیکل پر ہے۔ سونے اور کھانے کے اوقات میں خطرناک تبدیلی نے بھی ہماری اولاد کو مضمحل و بیزار کر دیا ہے ۔سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال منفی سوچیں اور بروقت کام نہ کرنے کی عادت نے بھی ان کو ناکام کر دیا ہے۔
روح اور جسم لازم و ملزوم ہیں، جس طرح جسمانی وجود کے لیے ضروری ہے کہ سانس لینے کا عمل مسلسل جاری رہے بالکل اسی طرح روحانی دجود کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہمہ وقت دل اور زبان اللہ کی یاد سے معمور رہیں، جب کہ مذہب کو پرائیوٹ لائف قرارر دے کر اللہ کی یاد سے دور کر کے روح کو غافل کر کے ظاہری اعمال پر اکتفا کر لیا گیا ہے ۔ ریا کاری نام و نمود اور فخر کے رویوں نے نفس انسانی میں ڈیرے ڈال کر بے جان و مردہ قلب افراد کی کثریت پیدا کر دی ہے۔
آج انسان خالص مادی وجود بن کر رہ گیا ہے اور یہی اس کے اخلاقی و روحانی زوال کا اصل سبب ہے ۔
ہر فرد میںاللہ نے صلاحیتیں و قابلیتیں رکھی ہیں ،کسی کو لکھنے پر عبور ہے اور کوئی اچھا بول سکتا ہے ، کسی کے گلے میں اللہ نے سر بکھیرنے کی صلاحیت ڈالی ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو جانچنا اور سماج میں مقام بنانا دراصل اپنی صلاحیتوں سے متعارف ہونا ہے۔ ماں کی جو بچے کی شخصیت بناتی سنوارتی ہے اور خاص رویوں سے اس کی ذات کی تکمیل کرتی ہے۔ ماں کی محبت ، ڈانٹ، شفقت اور توجہ بچے کی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے ،جو آگے چل کر اچھے یابُرے رویوں کی صورت میں معاشرے کا حصہ بن جاتی ہے۔
ہر فرد ہر ذی روح ایک معاشرتی وجود ہے جہاں وہ پیدائش کے بعد جوانی و بڑھاپے کی منازل طے کرتا ہے ۔ایک مثالی معاشرہ وہ ہی ہوسکتا ہے جس میں افراد کے درمیان محبت، احترام انسانیت ،رشتوں کا لحاظ ، بڑوں کا ادب ،چھوٹوں پر شفقت ، ایک دوسرے کی جان و مال کا تحفظ عزت سب شامل ہیں ۔اس کے ساتھ ہر فرد کو معاشی میدان میں سعی و جہد کا حق بھی حاصل ہو اور وہ طبقاتی تقسیم سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے کے مدد گار و معاون بن کر ایک دوسرے کا ساتھ دے۔
انسان کو جو چیز چھوٹا بناتی ہے وہ اس کی خواہشات نفس ہیں، یہی انسان کو چالباز ،مفاد پرست ،لالچی و مکار بنا دیتی ہیں ۔آج کی نوجوان نسل اپنی خواہشات کے جال میں الجھ کر دل کی تنگی کا شکار ہو گئی ہے، اس کی نگاہ میں صرف میں ، میری ذات ، میری خواہشیں، میری طلب ، میری محرومیاں، غرض اس’’ میں‘‘ کے چکر نے اُن میں ادب ،احترام، انسانیت، محبت و اخوت کے جذبات ختم کر دیئے ہیں۔
پہلے نصیحت سن کر شرمندہ ہو جاتے تھے، اب نصیحت ہی سننا پسند نہیں کرتے اور اگر نصیحت سن بھی لی تو غصے سے مشتعل ہو کر بد زبانی پر اتر آتے ہیں۔ نہ استادوں کا احترام رہا نہ ہی والدین کی عزت اور نہ چھوٹوں کا لحاظ، نہ عہد کی پاسداری رہی ۔خیانت ، جھوٹ اور اخلاقی گرا وٹ میں مبتلا نوجوان مغربیت میں ڈوبے ہوئے ہیں ،بد نظمی و افراتفری میں مبتلا اپنی عادات اوربُرے ساتھیوں کی صحبت میں اپنا مستقبل داؤ پر لگائے ہو ئے ہیں۔
ان عوامل کی بڑی وجہ سماج میں بڑھتی فحاشی، بے حیائی مجرب اخلاق فلمیں ،بے ہودہ لٹریچر بھی ہیں۔ غلط نظام نےنو جوانوں کی زندگی کی قدریں بدل کر ان کی صلاحیتوں کو مفقود کر دیا ہے۔ مستقبل کے معماروں کے رویوں کو صحیح خطوط میں لانے کے لیے والدین و اساتذہ کے ساتھ ادارہ جات سمیت ہر فرد کو بہترین حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی کہ یہ نوجوان ہی معاشرے کی امید اور روشن و تابناک مستقبل ہیں۔