تاریخی حقائق
میم دانش ۔سرینگر
جموں و کشمیر اپنی دلکش قدرتی مناظر کے لئے مشہور ومعروف ہے۔ یہ ایک ایسا خطہ بھی ہے جو گہرے ادبی اور ثقافتی ورثے میں جڑا ہوا ہے۔ اس کی ادبی روایت صدیوں پر محیط ہے جسے صوفی بزرگوں، شاعروں، مؤرخین اور ناقدین نے تشکیل دیا ہے جنہوں نے کشمیرمیں موجود مختلف ادبوں میں گرانقدر خدمات انجام دیئے ہیں۔ لل دید کی روحانی شاعری سے لے کر محمد یوسف ٹینگ، غلام نبی خیال اور رفیق رازوغیرہ کی علمی کاوشوں تک جموں و کشمیر کا ادبی ورثہ صوفی فلسفے، تاریخ اور فکری مباحث کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔
صوفی شاعرہ لل دیدجنہیں للیش وری یا لَلہ عارفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کشمیر کی سب سے مشہور صوفی شاعرہ ہیں۔ ان کے اشعار گہری روحانیت، عرفانی حکمت اور وجودی سوالات سے بھرپور ہیں۔ انہیں شیوازم اور تصوف کے درمیان ایک پُل سمجھا جاتا ہے اور ان کے اثرات بعد کے شعراءپر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ کشمیری زبان میں لکھی گئی ان کی شاعری میں خود شناسی، خدا کی محبت اور مادیت پسندی سے انکار جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ان کے کئی اشعار آج بھی سچائی کے متلاشی افراد کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔
ریشی روایت کے بانی شیخ نورالدین نورانی جنہیں نُند ریشی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کشمیر میں ریشی تحریک کے بانی تھے جو روحانیت، عدم تشدد اور ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے۔ ان کی شاعری سادگی کے باوجود گہری بصیرت رکھتی ہے اور انصاف و اخلاقیات پر زور دیتی ہے۔ انہوں نے اپنے دور کے حکمرانوں پر تنقید کی اور عوام کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ ان کا ادبی ورثہ آج بھی کشمیری ثقافت اور روحانی اقدار میں نمایاں ہے۔بلبلِ کشمیر حبہ خاتون پانپور سے تعلق رکھتی تھیں، اپنی غنائیہ اور درد بھری شاعری کے لئے مشہور ہیں۔ انہوں نے کشمیری شاعری میں رومانوی اور جذباتی عنصر متعارف کرایا اور محض روحانی موضوعات تک محدود نہ رہیں۔ ان کی شاعری میں محبت، انتظار اور جدائی کے جذبات نمایاں ہیں۔ وہ آج بھی کشمیر کی محبوب ترین شاعرات میں شمار کی جاتی ہیں۔
محمد طاہر غنی (غنی کشمیری) ایک ممتاز فارسی شاعرتھے جن کی تخلیقات ایران اور وسطی ایشیا میں بے حد مقبول ہوئیں۔ان کے اشعار کودنیا بھر میں بے حد سراہا گیا ۔ ان کی شاعری میں خوبصورت تشبیہات اور گہری جذباتیت پائی جاتی ہیں۔ اگرچہ وہ کشمیری ثقافت سے جڑے ہوئے تھے لیکن ان کی شاعری علاقائی حدود سے باہر نکل کر وسیع فارسی ادبی روایت کا حصہ بن گئی۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے دوران کلاسیکی شاعری کے سرتاج محمود گامی اور رسول میر جیسے شعرا نے کشمیری شاعری میں فارسی اثرات متعارف کروائے۔ محمود گامی کو کشمیری غزل کا بانی سمجھا جاتا ہے جنہوں نے فارسی ادبی اسلوب کو کشمیری روایت کے ساتھ جوڑدیا۔ رسول میر نے کشمیری شاعری میں رومانوی اور عوامی موضوعات کو فروغ دیا۔ ان کی غزلیں آج بھی کشمیر میں مقبول ہیں۔
کریشن جُو رازدان کشمیری بھاگتی شاعری کے نمایاں شعراء میں سے ایک ہے جو شیوا پرستی اور کشمیری دیہی روایات کے امتزاج کے لئے مشہور ہیں۔زیندِ کول نے کشمیری، فارسی اور اردو میں تحریریں لکھیں اور عرفان و انسانیت پر مباحث کئے۔وہ جدید کشمیری شاعری کے بانیوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔زندِ کول کا کشمیری ادب پر گہرا اثر ہے جو آج بھی خطے کے شاعروں اور ادیبوں کے لئے ایک تحریک کی حیثیت رکھتا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں غلام احمد مہجور کی شاعری ابھری جو ایک انقلابی شاعر تھے۔ ان کی شاعری نے کشمیری عوام میں بیداری پیدا کی اور انہیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونے، تعلیم حاصل کرنے اور ترقی کی راہ اپنانے کی تلقین کی۔ مہجور نے کلاسیکی اور جدید موضوعات کو یکجا کر کے کشمیری شاعری کو ایک نیا رنگ دیا۔
پرم ناتھ بزاز ایک تاریخ دان، صحافی اور سیاسی مفکرتھے جنہوں نے کشمیر کی سماجی و سیاسی تاریخ کو قلمبند کیا۔انہوں نے کئی اشاعتوں کی بنیاد رکھی اور ان کی ادارت کی۔ انہوں نے کشمیری تاریخ، سیاست اور سماج پر وسیع پیمانے پر لکھاجس میں کشمیر کی سماجی و سیاسی ترقی پر گہری بصیرت فراہم ہوتی ہے۔شاعر، افسانہ نگاراور نقاد امین کامِل ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے۔ انہوں نے کشمیری ادب کو جدید بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے ناول گٹہ منز گاش (اندھیرے میں روشنی) اور کہانیوں کا مجموعہ کتھہ منز کتھ (کہانی در کہانی) کشمیر کے سماجی اور سیاسی منظرنامے کو اجاگر کرتے ہیں۔
نامور کشمیری شاعر ، نقاد اور عالم رحمان راہی گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے کشمیری شاعر تھے ۔ انہوں نے جدید کشمیری شاعری میں اہم کردار ادا کیا اور روایتی موضوعات کو عصری مسائل کے ساتھ جوڑ دیا۔ ان کی شاعری میں شناخت ، تڑپ اور سماجی و سیاسی منظرنامے جھلکتے ہیں۔نرسنگھ دیو جموال ایک نمایاں ڈوگری مصنف اورڈرامہ نگارہے۔ان کے وسیع ادبی کام اور ان کی لگن نے ڈوگری ادب اور تھیٹر کو زبردست فروغ دیا۔ نرسنگھ دیو جموال نے شاعری، ناول، افسانے، ڈرامے، مضامین اور بچوں کے ادب پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ڈوگری ادب کے تئیں ان کی خدمات مستقبل کے لئے ایک مشعل راہ تصور کی جاتیں ہیں۔ دین بندو شرماڈوگری زبان کے ایک ممتاز اورنمایاں ادیب تھے۔ ان کے افسانوی مجموعے میل پتھر (سنگِ میل) میں جموں کے معاشرتی حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان کی تحریریں اپنی حقیقت پسندی اور جموں کی ثقافتی شناخت سے گہری وابستگی کی وجہ سے بے حد سرائی جاتی ہیں۔
محمد یوسف ٹینگ ایک مؤرخ، ادیب اور نقاد تھے جنہوں نے کشمیری ادب اور تاریخ کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کشمیر کی سیاسی تاریخ پر بہت کچھ لکھاہے۔ بحیثیت ادبی نقاد انہوں نے کشمیری اور اردو ادب کی ترویج و تحفظ میں نمایاں کام کیا اور پرانے شعرا و ادبا کے کام کو اجاگر کیا۔ ان کی علمی تحقیقات نے کشمیر کے سماجی، سیاسی اور ادبی ارتقا کو سمجھنے کے لئے قیمتی مواد فراہم کیا ہے۔ناجی منور ایک بااثر کشمیری شاعرتھے جو اپنی گہری فلسفیانہ اور صوفیانہ شاعری کے لئے معروف ہیں۔ان کی تحریروں نے کشمیری ادب، خاص طور پر بچوں کی شاعری کے میدان میں گہرا اثر چھوڑا ہے۔ناجی منور کشمیری زبان میں بچوں کے ادب میں اپنی نمایاں خدمات کے لئے مشہور تھے۔صحافی اور مفکرغلام نبی خیال ایک معروف شاعراور مصنف تھے جنہوں نے کشمیری اور اردو ادب میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے کشمیر کی تاریخ، ثقافت اور سیاسی جدوجہد پر بے شمار مضامین لکھے ہیں۔ بحیثیت صحافی انہوں نے جرات مندی سے عصری مسائل پر قلم اٹھایا اور کشمیری علمی و ادبی حلقوں میں ایک اہم آواز بنے۔ ان کی تحریریں کشمیر کی خوبصورتی اور دیگر امور کی عکاسی کرتی ہیں۔
جدید دور میں آغا شاہد علی نے کشمیری شاعری کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کروایا۔ انگریزی زبان میں ان کی شاعری، خاص طور پر ان کا مشہور مجموعہ The Country Without a Post Office (بغیر ڈاکخانے کا ملک) نے عالمی سطح پر کشمیر کے درد، جدائی اور المیے کی تصویر کشی کی۔ ان کے اشعار جو تاریخ اور ذاتی دکھ کو یکجا کرتے ہیں، آج بھی قارئین کو متاثر کرتے ہیں۔رفیق راز ایک معاصر کشمیری شاعرہے جو روایت اور جدید حساسیت کے امتزاج کے لئے جانے جاتے ہیں۔ان کی شاعری کو اس کے جذباتی گہرائی، عروضی جدت اور صوفیانہ موضوعات سے وابستگی کے لئے سراہا جاتا ہے۔وہ آج کے دور میں کشمیری اور اردو شاعری میں ایک نمایاں شخصیت تصور کئے جاتے ہیں۔
یہ صرف جموں و کشمیر کے وسیع ادبی ورثے کی ایک جھلک تھی۔ ان میں سے ہر شاعر،مورخ اور ادیب نے اس خطے کی ثقافتی اور فکری شناخت کو تشکیل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ لل دید کی صوفیانہ شاعری سے لے کر محمد یوسف ٹینگ ، غلام نبی خیال اوررفیق راز وغیرہ کے تاریخی و صحافتی کاموں تک جموں و کشمیر کی ادبی روایت وسیع اور متنوع ہے۔ یہ ورثہ روحانی حکمت، عشقیہ اظہار، سیاسی جدوجہد اور فکری مباحث کو یکجا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف کشمیر کی روح کی عکاسی کرتا ہے بلکہ نئی نسلوں کو بھی اس خزانے کو دریافت کرنے، محفوظ رکھنے اور اس میں وسعت پیدا کرنے کی تحریک دیتا ہے۔آج بھی نوجوان ادیب، شاعر، مورخ اور نقاد اس خطے کی پیچیدہ سماجی و سیاسی حقیقتوں، بھرپور روایات اور عوام کے غیرمتزلزل عزم کو دریافت اور اجاگر کر رہے ہیں۔ ان کا کام اس ثقافتی طور پر متحرک علاقے کی ادبی مشعل کو روشن رکھے ہوئے ہے جو نسل در نسل فہم و شعور کو پروان چڑھاتی رہے گی۔
[email protected]