خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جموں و کشمیر میںپچھلے دو ڈھائی مہینوں کی مسلسل خشک سالی کے بعد موسم میں بدلائو کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور گزشتہ تین چار دنوں سے وادی کے اطراف و اکناف میں وقفے وقفے سے جس انداز سے ہلکی ہلکی برف باری اور بارشیں ہونا شروع ہوئی ہیں،اُس کے نتیجے میں خشک سالی کےزور میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ پہاڑی علاقوں میںبرف باری اپنی روایت کے تحت بہت ہی کم ہوئی ہے،جوکہ بہر صورت وادی ٔ کشمیر کے لوگوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔اسی طرح کئی سیاحتی مقامات پر برف کی جو ہلکی تہیں نظروں میں آئی ہے،وہ بھی توقعات کے بالکل برعکس دکھائی دے رہی ہے۔گو کہ چلہ کلاں کےاختتام کے ساتھ ہی درجہ حرارت میں بھی فرق آگیا ہے۔جس کے نتیجے میں اب پڑنے والی برف کے جمنے کا امکان بھی بہت کم ہے۔جبکہ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید برف باری اور بارشوں کا امکان ہے،جس کے نتیجے میں خشک سالی کا دور ختم ہوسکتا ہے۔ وادی کا ہر فردِ بشر اس حقیقت سے باخبر ہے کہ اپنی اس وادیٔ کشمیر کی ہر شےخوبصورت تھی ۔ شہر، قصبے، گاؤں، ندی نالے، چشمے، نہریں، ندیاں، دریا، پہاڑ، سڑکیں، کچے پکے راستے ،پگڈنڈیاں اور کھیت ، سب کچھ قدرتی حُسن سے مالا مال تھا ۔ماحول، صاف ستھرا، موسم اپنے وقت پر بدلتے، کسان وقت پر فصل بوتے، وقت پر کاٹتے۔موسم سرما میں برف باری ہوتی تھی ،بارشیں ہوا کرتی تھیںاور سرد ہوائیں بھی جسم و جاں کے لئےفرحت بخش ہوتی تھیں،سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق چلتاتھا۔ لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے کشمیراب پہلے جیسا نہیں رہابلکہ یہاںمختلف سطح پر کئ تبدیلیاںرونما ہونا شروع ہوگئیں،جن میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی بھی شامل ہیں۔ اب تو یہاںکی فضائیں زہریلی، صاف شفاف ہوا آلودہ، ندیاں چشمے اور دریا بد بودار ہو چکے ہیں۔ آلودگیوں،زہریلی گیسوںاور دھوئیں نے آسمان کے محفوظ خطوں تک کوڈھانپ کر سموگ کی شکل اختیار کر لی ہے، اگرچہ پہلے پہل بھی دُھند ہوا کرتی تھی لیکن اُس میں شفافیت تھی لیکن اب یہ زہر آلود ہ ہوچکی ہے، جس سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔اس کے لئے نہ صرف ہمارے یہاں کی حکومتیں بلکہ ہم سب کی خود غرضی ،غفلت ،نا اہلی،لالچ اور بد عملی ذمہ دار ہیں۔ گذشتہ تین دنوں سے وادی میںکم اورہلکی برف باری پر کسانوں کا یہی کہنا ہے کہ آنے والے موسم بہار کے دنوں لوگوں کو راحت ملنے کا زیادہ امکان نہیں ہے،جبکہ بعض عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ اب انہیں ایسے دن دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ عالمی سطح پر ایسی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے جن سے کاربن گیسوں کی پیداوار بڑھ رہی ہے ،جو نہ صرف جانداروں کے لئے مضر ہیں بلکہ قدرتی توازن کو بگاڑنے میں بھی اہم رول ادا کررہے ہیں ،ان گیسوں سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ موسم میں ایسی تبدیلیاں آگئی ہیںاور برف باری اور بارشوں کا برسنا رُک گیا ہےجوکہ باعث تشویش ہے۔ہمیں کیا کرنا چاہئے ،اس پر غور فکر کرنے کی ضرورت ہےتاکہ یہ ابتر صورتِ حال بہتر ہو سکے ۔ہمیںلئے لازم ہے کہ کسی بھی صورت میں قدرت کے کاموں میں مداخلت نہ کریں۔ ندی ،نالوں اور دریائوں میں کوڈا کرکٹ اور غلاظت نہ ڈالیں،جنگلات کی حفاظت کریں۔ذرا غور کریںکہ ہمارےگاؤں ، قصبوں اور شہروں میںگاڑیاں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ پیدل سفر کرنےوالوں کے لئے چلنا محال ہو چکا ہے ۔اس بے ہنگم ٹریفک سے ڈیزل، پٹرول اور گیس کے اخراج ہونے سے فضا آلودہ ہو چکی ہے۔گاؤں میں فصلوں کی کٹائی کے بعد جلانے والا عمل بھی فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے، بھٹوں ، فیکٹریوں اور کریشرز سے نکلنے والا دھواں اور گردو غباربھی زہریلا ہوتا ہے۔ شہر بھر کا کوڑا کرکٹ اور غلاظت کو جلانے والا بدبودار زہریلادھواںبھی فضا کو آلودہ کررہا ہے ۔تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مضر صحت دھویں والی کارخانوں، بھٹوں، کریشرز اور کوڈا کرکٹ جلانے والے پروجیکٹوں کو مناسب جگہوںمنتقل کیا جائے۔ سڑکوں ، شاہراہوں پر زیادہ سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ لائی جائے تاکہ موٹرگاڑیوں و موٹرسائیکلوں کی تعداد میں کمی واقع ہوجائےاور جہاں تک ممکن ہو سکے،سرکاری انتظامیہ اس کے حل کے لیے ہر ممکن اقدامات کریںاور ایسے آلاتِ ٹیکنالوجی استعمال کروائیں جو آلودگی روکنے میں معاون ثابت ہوسکیں۔ فیکٹریاں ، کارخانے اور کریشرز والے، زہریلے مواد کی Treatmentنہیں کرتے ،اُن پر سخت کاروائی کی جائے۔ ماحولیات کے محکمہ کو بااختیار اور متحرک کیا جائے ۔ زہریلا دھواںاور مضر صحت گردو وغبار روکنے کے لیے سائنسی ذرائع اختیار کئے جائیںاور ساتھ ہی قدرت کی حسین وادیاں جو کہ قدرت کا حسین شاہکار ہیں ،کوبھی آلودہ ہونے سے بچانے کے اقدامات کئے جائیں۔یہ سب کچھ ہوجائے تو ممکن ہے خدا ہم سے راضی ہوجائےاور آئندہ برس مناسب برف باری اور بارشیں ہوجائیں۔