ہف //ہف گائوں کے سب سے زیادہ سرگرم رہنے والے جنگجو اور برہان وانی گروپ کے آخری ممبر صدام پڈر کی موت کی خبر پھیلتے ہی صدام کی آخری جھلک دیکھنے کیلئے کئی دور دراز گائوں سے لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ میں بھی مظاہرین میں شامل ہوکر صدام پڈر کے آبائی گائوں کی جانب چل پڑا ، جو شوپیاں قصبے سے 18کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ہمارے صفر کا آغاز اوند راولپورہ سے ملک گنڈ گائوں سے شروع ہوا جو عادل ملک نامی جنگجوکا آبائی گائوں ہے جو صدام پڈر اور دیگر تین جنگجو بشمول پروفیسر محمد رفیع بٹ کے ہمراہ سوموار کو جھڑپ میں جاں بحق ہوئے ۔ ملک گنڈ میں ہزاروں لوگ عادل ملک کی جسد خاکی کا انتظار کررہے تھے اور میں بھی لمبے کارواں میں ہف گائوں تک جانے کیلئے شامل ہوگیا۔ اس گائوں میں کوئی پابندیاں نہیں تھی اور لوگ وہاں آنے والے افراد کو پانی اور خوراک فراہم کررہے تھے۔ مرد اور بچے آزادی کے حق میں نعرے بلند کررہے تھے جبکہ خواتین روف کررہی تھیں۔ہف پہنچنے سے قبل قافلے کو انڈسٹریل ایریا لاسی پورہ سے گزرنے کیلئے کہا گیا تاکہ چلی پورہ میں قائم آرمی کیمپ کو پیچھے چھوڑ دیا جائے۔ لوگ پیدل ، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر چل رہے تھے اور اچھن سے تمام لوگ ہف کی جانب پیش قدمی کررہے تھے۔۔لوگوں کا ہجوم اتنا تھا کہ کئی بار نماز جنازہ ادا کی گئی اور میں بھی اس نماز جنازہ میں شامل ہوگیا اور ہزاروں لوگوں اور نصف درجن جنگجووں کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی۔صدام پڈر کا چہرہ پوری طرح مسخ ہوا تھا جبکہ بلال مولوی کو لوگ پہچان سکتے تھے۔ جنگجوآئے اور گولیوں کے کئی رائونڈ چلا کر مرحوم ساتھیوں کو سلامی دی جسکے بعد لوگوں نے گورنمنٹ ہائی سکول ہف اور جنگجوئوں کمانڈر بلال مولوی کے گھر تک مارچ کیا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ نہ تو لوگ اور نہ ہی جنگجومستقبل میں صدام پڈر کا خلا پُر کر پائیں گے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ پڈر جنگجوئوں اور انکے مقصد کیلئے ایک اثاثہ تھا اور اب اس گائوں سے صرف ایک جنگجو سرگرم ہے۔ لوگ دیر شام گئے تک جلوسوں کی صورت میں مرحوم جنگجوکمانڈر کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آرہے تھے اور گائوں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوتے وقت تک لوگ بھاری تعداد میں جنگجووں کمانڈر کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آرہے تھے۔