رحیم رہبر
خیالوں کی رات بہت گہری تھی! وقت نے بیتے لمحوں کو دیکھا اور گھبرا کے کھڑکی سے چھلانگ لادی۔۔۔۔ وقت زخمی ہوا۔اس کے گٹھنوں سے خون رِس رہا تھا! میں کمرے میں اکیلا یہ کربناک منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسی اثناء میں میرا موبائل فون بجنے لگا۔
’’ہیلو۔۔۔ جی میں احمد ہوں‘‘ اُس نے کہا۔
’’جی احمد! کیا کررہے ہو؟‘‘
’’جی میں وہی ادھوری کہانی آج مکمل کررہا ہوں‘‘۔
’’وہ۔۔۔وہ ادھوری کہانی!؟‘‘ میں چونک گیا۔
’’جی۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔ وہی ادھوری کہانی جس کا آدھا حصہ آپ پہلے سُن چکے ہیں۔‘‘ احمد بولا۔
’’آدھا حصہ!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’جی! اس کہانی کا آدھا حصہ میں آپ کو پہلے ہی سُنا چکا ہوں۔‘‘
’’جی احمد سنائو‘‘۔
’’کہانی کا محور وہ بوڑھا چنار ہے‘‘۔ احمد نے کہا۔
’’جانتا ہوں‘‘
’’اُس بوڑھے چنار کے نیچے وہ حسین یادیں۔۔۔ وہ حسین پل دفن ہیں جب میرے بچپن میں ہم گائوں کے بچے، سلطان، احمد، رحمان، اسد، زینب، خدیجہ، عزی، لالی، ڈالی، ببلی، تتلی، رویندر، اشوک، ویرکمار اور رزاق اِس کے سائے میں کھیلتے تھے۔ شام ہوتے ہی ہم سب بچے اس چنار کے نیچے جمع ہوتے تھے۔ تب آسمان تقسیم نہیں ہوا تھا۔ ہماری مستی کو دیکھ کر اُس بوڑھے چنار پر بسکین پرندے طوطا مینا، کبوتر، چڑیا اور ہزار داستان خوب چہچہاتے تھے۔!‘‘
’’پھر۔۔۔!؟‘‘ میں نے تجسس میں پوچھا۔
’’پھر جنوبی سمت سے کووں کا ایک بڑا جُھنڈ کائیں کائیں کرتے اُس بوڑھے چنار کی سنہری ٹہنیوں پر بیٹھتا تھا۔ وہ سب کوے چاندنی میں نہا لیتے تھے اور دیر تک گاتے رہتے تھے۔‘‘
’’کوّے گاتے بھی ہیں!‘‘۔ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں بھائی ہاں۔۔ اس چنار پر ہر شب ایک برات سجتی تھی۔ پھر سب کوّے چاندنی اوڈھ لیتے تھے اور خوب مستی کرنے کے بعد دولھا، دولہن کا وِداع کرتے تھے!‘‘۔
’’یار احمد! وہ منظر بھی کیا خوبصورت منظر ہوا ہوگا!؟‘‘
’’جی بہت خوبصورت‘‘ احمد نے دھیمی آواز میں بولا۔
’’پھر وہ چنار آج اپنی بے بسی کا رونا کیوں رو رہا ہے؟‘‘
میرا سوال سُن کر احمد بِلک بِلک کے رویا،
’’فلق نے اِس کو لُوٹ کے ویران کردیا۔‘‘
’’مطلب!؟‘‘ میں نے پوچھا
’’ہُوا یوں کہ ایک شام جب گائوں کے بچے اس چنار کے نیچے کھیل رہے تھے اور جب چنار پر پرندے مستی کررہے تھے۔ کوّوں کی براتے نکلنے ہی والی تھی۔ اچانک آسمان سے ایک خوفناک بجلی گری۔ دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھا چنار آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ سب پرندے نوحہ خوانی کرنے لگے۔ میں نے پرندوں کے آشیانوں کو جلتے ہوئے دیکھا!۔
پرندوں کے بچوں، جن کے چھوٹے چھوٹے پر نکل آئے تھے، کو میں نے تڑپتے ہوئے مرتے دیکھا! میں نے اس خوفناک جھلستی ہوئی آگ میں طوطا مینا کی جلی ہوئی لاشوں کو زمین پر بکھرتے ہوئے دیکھا۔ اس طرح صدیوں کا اتہاس لمحوں میں اُجڑ گیا!‘‘
’’احمد! اس کربناک حادثہ کو کتنا عرصہ ہوا ہوگا؟‘‘
’‘پورے تیس سال‘‘ اس نے سسکتے ہوئے جواب دیا۔
احمد نے تو کہانی مکمل کی، لیکن کہانی سُن کر میرا گھائو پھر رِسنے لگا۔ مجھے مینا یاد آگئی۔ جو اُس دِن اُس بوڑھے چنار کے نیچے اپنی سہیلیوں کے ہمراہ مٹی کے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہی تھی!
���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،موبائل نمبر؛9906534724