چند دن قبل پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں ایک د ل فگار سانحہ رونماہواجس میں ایک کم سن بچی کو انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔اس بچی کا نام زینب تھا اور وہ مظلومیت کی علامت بن گئی ۔اس کی وہ چیخ و پکار جسے قاتل نے دبایا تھا،جیسے فضائے بسیط میں گونجنے لگی۔ یہی وجہ ہے اس کے خونِ ناحق نے پورے پاکستان کو سراپا احتجاج ہونے پر مجبور کیا ۔ جس کسی کے پہلو میں انسان کا دل تھا وہ ٹرپ اٹھا۔ ایک انسان نما درندے نے ایک بچی کے ساتھ ظلم ِ عظیم کر کے گویاپوری انسانیت کو سوگوار بنا دیا۔ حساس طبعیت ماؤں کو زینب کی دل موہ لینے والی تصویر میں اپنے بچوں کا عکس نظر آیا تو ان کا رُواں رُواں اس خیال سے کانپ اٹھا کہ کل کو ان کے ننھے منھے لاڈلوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ اس بہیمانہ قتل نے بچوں کے تئیں عدم ِتحفط کے احساس کونہ صرف بچوں کے کومل دلوں میں بلکہ ان کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے ذہنوں میںپھر سے جگادیا ۔ قرآن کریم کے مطابق کسی انسان نما درندے نے ایک زینب کی عصمت و حرمت کو پائمال کر کے پوری انسانیت کی حرمت و عصمت کو پائمال کیا ۔ ایک معصوم کی کیا جان لی گویا اس نے زمین پرننھے فرشتوں کا اجتماعی قتل کیا۔
زینب کے متعلق جو معلومات الیکڑانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا میں مشتہر ہوئیں،اُن کے مطابق اس کے والدین زیارتِ حرمین کی غرض سے گھر سے دور تھے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ بچے اپنے ماں باپ کی وقتی جدائی سے بھی نڈھال ہو جاتے ہیں اور جب تک وہ واپس لوٹ کر نہ آئیں ان کا دل و دماغ چشم براہ ہوتا ہے۔کم سن زینب کو بھی اپنے والدین کی وقتی جدائی نے ضرور متاثر کیا ہوگا لیکن شاید یہ سوچ کر اس نے اپنے معصوم من کو یوں بہلایا ہوگا کہ اس کے والدین خدا کے گھر مہمان بن کر گئے ہیں اور بہت جلد لوٹ آئیں گے اوراس کے لئے خدا کے یہاں سے بہت سارے تحفے تحائف بھی لے آئیں گے۔نہ جانے اس کے پاک و پاکیزہ اور معصومیت سے معمور ذہن میں کتنے خوشگوار خیالات محوِگردش رہے ہوں گے۔ ممکن ہے اس نے سوچا ہو کہ جب اس کے ابو اور امی مقدس سفر سے لوٹ آئیں گے توسب سے پہلے کون مجھے گودی میں لے کر پیار کرے گااور میں دوڑ کر کس سے لپٹ جاووںگی، امی سے یا ابو سے؟ ۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے اس مقدس سفر پر روانہ ہو تے وقت زینب نے اپنے والدین سے کوئی فرمائش بھی کی ہواور پھر اس یقین کے ساتھ اس نے انتظارکا ایک ایک لمحہ گزارا ہوگا کہ اس کی فرمائش ضرور پوری ہوگی۔اسی طرح دوسری جانب رہ رہ کر زینب کے والدین کو بھی خانۂ خدا میں بھی اپنے گھر کاخیال ضرور آیا ہوگا ۔ گھر کے دیگر افراد کے ساتھ ساتھ اس پیاری سی بچی کی تصویر بھی بار بار ان کے اذہان میں منعکس ہوتی ہوگی۔انہوں نے ضرور بضرور اپنی پیاری زینب کی لمبی عمر اور کامیاب زندگی کے لئے دعا کی ہو گی۔انہیں خدا کی یادنے بھی اپنی بچی کی یاد سے غافل نہیں کیا ہوگا۔وہ بھی اس بات سے ضرور واقف ہوں گے کہ جب بھی رسولِ خداؐ دور کہیں سفر پر جاتے تھے تو وہ سب سے آخر میں اپنی لاڈلی بیٹی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہراؑسے رخصت لیتے تھے اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے اپنی دختر بلند اقبال فاطمہ علیہا سلام کو ہی دیکھنے جاتے۔ سیرت کے اسی پہلو کو مدنظر رکھ کران کے ذہن کے کسی کونے میں یہ خیال رہا ہو گا کہ وہ بھی اپنی لاڈلی اور ننھی سے بیٹی زینب کو سب سے پہلے گلے لگا کر ڈھیر سارا پیار دیں گے ۔چنانچہ ماں اپنی مامتا اور باپ شفتِ پدری کو ایامِ جدائی میں اپنے بچوں کے لئے بچا کے رکھتے ہیں۔ جب انہیں اپنے بچوں کا قرب دوبارہ نصیب ہو جاتا ہے تو پھر اس محفوظ کی ہوئی مامتا اور شفقت کو ایک ساتھ اپنے پیاروں پر وار دیتے ہیں۔ہائے افسوس!ان والدین کی بدنصیبی،جنہوں نے یہ سوچا ہو گا کہ ان کی کم سن بیٹی انہیں دیکھی گی تو اُچھل کر ان کی گود میں آجائے گی۔ لیکن ان کی گود میں آنے سے پہلے ہی وہ موت کی گود میں جا کر سو گئی۔اب تو وہ مامتا اور شفقت جوانہوں نے اپنی نازک سی بیٹی کے لئے رکھ چھوڑی تھی وہ ان کے لئے عمر بھر سوہانِ روح بن جائے گی۔
بہر حال آج پھر ایک ننھی سی کلی چمن انسانیت کو سوگوار کر گئی۔ گو کہ پوری انسانیت اس کے غم میں نوحہ کناں ہے لیکن پھر بھی قلم اور زبان اس کرب کو ظاہر کرنے سے قاصر ہے کہ جو اس معصوم بچی نے جھیلا۔افسوس صد افسوس! یہ ننھی سی جان بیک وقت تہرے جرم کا شکار ہوئی۔وہ درسِ قرآن کی غرض سے گھر نکلی تھی کہ کسی انسان نما شیطان نے اسے پکڑ کر پہلے اغواء کیا، اس کی عصمت دری کی اور پھربڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔ستم بالائے ستم یہ کہ ننھی سی لاش کی بے حرمتی کر کے کچرے کے ڈھیر میں پھینکا گیا۔ یعنی ظلم و تعدی کی فہرست میں جو بھی سرِ فہرست مظالم ہیں وہ سب کے سب مظلوم بچی کے ساتھ ہوئے۔پانچ دن کی مختصر سی مدت میں ایسے ناقابل ِ برداشت جرائم کا سامنا کیسے اس نازک سی بچی نے کیا ہوگا ، سوچ کر کلیجہ منہ کو آتاہے ،جگر چھلنی ہوا جاتا ہے۔جو مظالم چار صدیوں پر بھی بھاری ہے وہ مظالم زینب نے چار پانچ دن میں برداشت کئے۔اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ وہ بچاری کس قدراذیت اور درد و کرب کے کن روح فرسا مراحل سے گزری ہوگی۔چنانچہ اس مظلوم بچی ٰٰٰٰکے والدین نے اسے خانوادۂ رسالتؐ کی ایک مظلوم ترین خاتون زینب کبریٰ ؑکے اسم ِ مبارک سے مسمّیٰ کیا تھا۔مقتول زینب کی ماں کے مطابق زینب کے والد ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ ’’ہم نے خاندان ِرسالت مآبؐ کے والہانہ عقیدت و محبت کے پیش نظراس کا نام رکھا ہے۔ اس لئے کوئی اس کی جانب تیکھی نگاہ سے بھی نہ دیکھے اور اس مقدس نام کے تقدس کے پیشِ نظرپورے خاندان میں زینب کی ایک خاص اہمیت و عزت تھی۔ لہٰذا اس تعلق کے حوالے سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ زینب کو جس عظیم المرتبت خاتون کے نام ِ نامی سے منسوب کیا گیا تھا ، انہوں نے بھی ایک قلیل مدت میں مصائب کے ایک بڑے ریلے سے نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ اس کا رخ قصرِ ظالم کی طرف یوں موڑ دیا کہ ظالموں کو اپنے ظلم کا ریلا ہی بہا لے گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا لقب ام المصائب قرار پایا۔ بلا تشبیہ قصور کی زینب ،زینب ِ کربلاکی طر ح ایک کم مدت میں بہت زیادہ اور سنگین مظالم سہہ کر اس دنیا سے رخصت ہوئی ۔وہاں یزید وشمر نے خاتونِ کربلا کے ساتھ گوناگوں مظالم روا رکھے اور یہاں یزید صفت درندے نے اس کلی کو مسل ڈالا ،اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر کربلا کی شیر دل خاتون ’’اُم المصائبـ‘‘ ہیں تو ان کی یہ ننھی ہم نام پیرو ’’بنت المصائب‘‘ کہلائی جائے ۔
باعثِ تشویش امریہ ہے کہ نہ زینب پہلی کم سن بچی ہے جس کے ساتھ یہ ظلم ِ عظیم ہوا اور نہ یہ آخری بچی ہو گی بلکہ آثارو قرآئن کے مطابق یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا کیونکہ طبقہ ٔ اُناث کے لئے صورتِ حال روز بروز بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے ۔ پاکستان پنجاب کے جس ضلع یعنی قصور میں یہ دلدوز سانحہ پیش آیا، ۲۰۱۵ میں اس جائے وقوعہ سے محض چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع حسین خان والا میں ایک جنسی سیکینڈل سامنے آیا جس میں ۱۴ سال سے کم عمر والے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا اور اس بہیمانہ فعل کی ویڈیو بھی بنا لی گئی۔ گزشتہ چھے مہینے کے دوران زینب کے ساتھ پیش آمدہ واقعہ سے ملتے جلتے بارہ واقعات اسی ضلع قصور میں پیش آئے۔ معاملہ اسی ضلع تک ہی محدود ہوتا تو اس کا حل پیش کرنا قدرے آسان تھا مگراس قسم کے واقعات پورے معاشرے کی ابتری اور بے حسی بلکہ بے راہ روی کی غمازی کرتے ہیں۔ بی بی سی اردو سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ گیارہ بچے پاکستان میں جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیںاور اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ساحل نامی ایک رضاکار تنظیم کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ ۲۰۱۶ ء میں بچوں کے متعلق اغواء ، جنسی زیادتی اور جبری شادی کے ۴۱۳۹ کیس رجسٹر ہوئے۔
بہر حال انسانیت کے بدن پر لگے اس زخم سے تازہ خون رس ہی رہا تھا کہ ایک اور گھاؤنے درد کی شدت کو دو چند کردیا۔ ابھی زینب کی قبر کی مٹی گیلی تھی کہ ایک اور ننھی سی مسخ شدہ لاش کو اپنی گود میںدیکھ کر دردر کے مارے زمین کا سینہ شق ہوا ۔ اس لاش کو من و عن بطورِ امانت اپنے پہلو میں لے لیا تاکہ روز محشر ان ننھی سی لاشوں کو اسی صورت میں اُگل دے جس ہیت و صورت میں اس کے سپرد کی گئیںاور پھر ان سے رب تعالیٰ خودپوچھے گا ’’تمہیںاس بے دردی کے ساتھ کس قصورمیں مارا گیا؟‘‘ واضح رہے قصور کے دلدوز واقعے کے چند روز بعد ہی جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں ایک اور کم سن بچی کے ساتھ بھی زینب کی داستانِ الم دہرائی گئی۔ ۸ سالہ آصفہ بھی جہاں دنیا سے بے خبر معصومیت کی بے خوف دنیا میں مگن تھی کہ کسی درندے نے اس کی معصومیت کو ہوس کے پنجوں سے تار تار کیا۔ ہر دو المناک واقعات میں اس قدر مماثلت ہے کہ جیسے دونوں واقعات کو سر انجام دینے والا ہاتھ ایک ہی ہے۔ کٹھوعہ کی آصفہ اور قصور کی زینب کو دو الگ الگ واقعات میں مختلف جگہوں پر تشدد کا نشانہ بنا یا گیا لیکن ان کے تقابلی جائزے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ جیسے ان دو درندہ صفت پیکروں میں ایک ہی شیطانی روح حلول کر گئی تھی۔جس انداز سے قصور اور کٹھو عہ میں اس گھناؤنے فعل کو انجام دیا گیا اور جو حیرت انگیز مماثلت ان دو مختلف واقعات میں پائی جاتی ہے ،اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ ہو نہ ہو دونوں کی انجام دہی میں یکسان محرکات کار فرما رہا ہوں۔
ان دلخراش سانحوں کا دوسرا پہلو بھی نہایت ہی اُمید شکن ہے اور وہ پہلو یہ ہے کہ اب انسانی سماج نے نہ جانے کتنے درندوں کو آدم ذات سمجھ کراپنی پناہ گاہ میں پناہ دے رکھی ہے۔ سماج کے دیگر افراد ان درندوں کی اصل پہچان سے واقف ہی نہیں۔پہلے پہل جب افرادِ معاشرہ کے مابین ایک گہرا تعلق اور ایک دوسرے کے تئیں اصلاح کا جذبہ موجود تھا۔ ایسے بد قماش عناصر کا زیادہ دیر تک چھپا رہنا محال تھا۔ گو کہ اُس وقت نگرانی کے یہ جدید آلات موجود نہیں تھے لیکن ہر فرد کو یہ احساس تھا کہ وہ دیگر انسانوں کی نگرانی میں ہے۔ وہ سماج کے ہر فرد کے سامنے جوابدہ ہے ۔ پہلے کی بہ نسبت سماجی سطح پر نگرانی کا فطری نظام کافی حد تک کمزور ہو گیا ہے۔اس لحاظ سے ہمارے آباو اجداد ہم سے کافی زیادہ حساس اور زیرک کے تھے ۔ کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ بحرِ انسانیت کے سطحِ آب پر رواں دواں معاشرے کی ناؤ میں اپنی جگہ پر چھیدنے والا پورے معاشرے کو ڈبونے کا عمل انجام دے رہا ہے۔ اس مجرم کی یہ منطق کسی بھی لحاظ سے قابلِ قبول نہیں کہ وہ اسی جگہ سماجی ناؤ میں چھید کر رہا ہے جو اس نے حسبِ حیثیت گھیر رکھی ہے لیکن موجودہ دور میںایک ہی معاشرے میں رہ رہے افراد کے مابین آپسی نگرانی اور ایک دوسرے کے تئیں فکرمندی کا جذبہ ماندپڑگیا ہے اور یہ بات ہر شخص کے ورد زبان ہے کہ کوئی کیا کرے اس سے ہمارا کیا لینا دینا ؟ آج کل سماجی رابطے کے ذرائع کی بھر مار ہے لیکن پھر بھی ہر فرد خود کو تنہائی میںخود کو خود مختار محسوس کرتا ہے اور اپنی ایک الگ تھلگ دنیا میں مست ہے ۔جہاں اسے کوئی دیکھنے بھالنے والا ہے نہ روکنے ٹوکنے والا۔ہم نے اس سماجی آنکھ کی بصارت کو کھو دیا ہے جو ہمیں خطرے سے قبل ہی خطرے کی بھنک دیتی تھی اوراپنی آنکھیں موند کر اب نگرانی کا سارا معاملہ سی سی کیمرے کے حوالے کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو اپنی آنکھوں میں جھانکنے کے بجائے سی،سی، ٹی وی کی فوٹج دیکھنے میں محو ہو جاتے ہیں۔یہ کسی معاشرتی المیہ سے کم نہیں کہ ایک انسان دیکھتے ہی دیکھتے درندہ بن جائے۔ وہ اشرف المخلوقات کے اوجِ کمال سے گر کر سفلیت کے آخری طبقے میں جا پہنچے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔نہ جانے وہ قیافہ شناش کیا ہوئے جو اپنے معاشرے کے کسی فرد میں ہورہی باطنی تغیر کواس کے چہرے سے ٹارتے تھے اور ا س سے پہلے کہ وہ ذلت کی گہری کھائی میں جا گرتا، اسے بچانے کی سعیٔ بلیغ کرتے تھے لیکن اب تو کسی کو کسی کی جانب دیکھنا تک گوارا نہیں ۔ اس کو تنزل سے کیسے بچایا جا سکے؟؟؟
باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ د نیا میں انسانی اقدار کا جنازہ ہر روز ایسے ہی کسی نہ کسی بظاہر چھوٹے مگر بھاری بھرکم جنازے کی صورت میں اٹھتا ہے۔ان دو دلدوز واقعات نے باور کرایا کہ انسانیت قریب المرگ ہے اور زینب اور آصفہ جیسی ادھ کھلی کلیوں کا کسی کی دست درازی سے مسل جانا اس بات کی غمازی کر تا ہے کہ اب چمنستانِ آدمیت میں وہ کبھی نہ سونے والی نرگسی آنکھ رہی جو ہمہ وقت اس کی نگرانی پر مامور تھی۔ مشامِ الفت و محبت کو معطر کرنے والا گلاب یہاں ناپید ہے جو عطر بیز ی سے نفرت کی فضاء قائم ہونے نہیں دیتا تھا۔اب تو گلِ لالہ کی طرح یہاں خونین قبا اوڑھے دل میں انسانی ہمدردی کا داغ لئے کوئی فرد دکھائی نہیںدیتاہے ،رنگین نوا بلبلیں نغمہ ٔ انسانیت بھول گئیں کہ انہیں اب گنگنانا بھی نہیں آتا۔ان کانٹوں میں چبھن ہی کہاں رہی جو گناہوں اور جرائم کے خلاف مزاحمت کی علامت تھے اور ہر اُس دست دراز کے ہاتھ کو توڑ دیتے تھے جو اَدھ کھلی کلیوںکو مسلنے کچلنے کی غرض سے اپنا ہاتھ بڑھانے کی جسارت کرتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ اب آئے روز زینب، آصفہ، اسما، کائنات ،بتول، تابندہ غنی،صبرینہ فیاض،دامنی ، پرینکا،سنڈریلا جیسی ادھ کھلی کلیوں کو مسلا کچلا جاتا ہے اور ہم سب دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا اجتماعی دیکھ ریکھ کا نظام کس قدر زوال آمادہ ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا وہ بھی روز رشن کی طرح عیاں ہے۔ بقول کسے ؎
قیاس کن زگلسانِ من بہارِ مرا
باعث ِتشویش بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کی درندگی میں سماج کے مختلف طبقوں سے وابستہ افراد ملوث پائے گئے۔ایک پاکستانی ٹی وی اداکارہ نادیہ جمیل جو اب شادی شدہ اور کئی بچوں کی ماں ہیں، نے اپنے بچپن سے متعلق انتہائی افسوس ناک انکشاف کیا ہے ۔’’ سوشل میڈیا پر جاری پیغامات اور بی بی سی کے ساتھ دئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جب وہ محض چار سال کی تھی تو اسے جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔’’مجھے اس گھناؤنے عمل کا نشانہ ایک صاحب، ڈرائیور اور انتہائی تعلیم یافتہ اونچے گھرانے سے تعلق رکھنے والے خاندان کے قریبی شخص نے بنایا۔وہ شخص اب شادی شدہ اور لندن میں اپنا کامیاب بزنس چلا رہا ہے۔‘‘اس انکشاف سے کم از کم یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ بد ترین حرکت فقط ان افراد کے ہاتھوں سر انجام نہیں دی جاتی ہے(جیسا کہ عام تاثر دیا جاتا ہے )جو ذہنی مرض میں مبتلا ہوںبلکہ بعض دفعہ تو ان قبیح ترین گناہوں میں بظاہرجنٹل مین کہلائے جانے والے افراد بھی ملوث پائے گئے حتیٰ کہ یہ انسان نما درندے مقدس ترین لباس میں نیز مقدس ترین مقام پر بھی فائز ہو سکتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی اس قسم کے واقعات سے یہ بات اخذ ہو جاتی ہے کہ مادی،سائنسی اور فنی اعتبار سے بامِ عروج پر پہنچنے والا موجودہ انسان سماجی،اخلاقی،معنوی اعتبار سے مسلسل زوال پزیری کی جانب گامزن ہے۔دورِ ظلمت میں اس نے جس صبحِ آزادی کا خواب دیکھا تھا اس کاسراغ دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ بقول ِ فیض ؎
یہ داغ داغ اْجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
email: [email protected]
cell : 9596465551