عاصف بٹ
کشتواڑ// ضلع کشتواڑ کی سب ڈویژن چھاترو کے علاقہ چنگام میں قایم ہائی سکول چنگام کی بنیاد 114 سال قبل 1909 میں رکھی گئی تھی لیکن آج تک سکول میں تعلیم حاصل کررہے بچے عارضی شیڈوں میں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ چنگام کے دورافتادہ علاقہ جات کے200 سے زائد بچے اس وقت سکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ سکول میں محض 20طلباء کے بیٹھنے کی جگہ دستیاب ہے اور اسوقت بچے بیکن کے بنائے عارضی شیڈوں کے اندر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ مقامی لوگوں نے مرکزی حکومت و یوٹی انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ سرکار تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے بلندبانگ دعوے کرتی ہے تاہم زمینی سطح پر حالات ان سبھی دعووں کے برعکس ہیں۔ 15000سے زائد آبادی کیلئے علاقہ میں محض ایک ہائی سکول بنا ہواہے جہاں دوردرازعلاقہ جات سے بچے تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔لیکن سکول کی ابتر حاصل سے وہ سخت پریشان ہے۔ سکول میں تعلیم حاصل کررہے بچوں نے بتایا کہ وہ مٹی پر بیٹھنے پر مجبور ہے کیونکہ سکول کی عمارت ہی نہیں ہے۔عارضی شیڈوں میں نہ دروازے اور نہ ہی کھڑکیاں لگی ہیں جس سے ہرطرف سردی آتی ہے۔ دسویں جماعت کی طالبہ ریتو دیوی نے بتایا کہ وہ چنگام سے سکول تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ ہمارے سکول میں کوئی بھی سہولیات نہیں ہے۔ جبکہ ہم عارضی ٹوٹے شیڈوں میں بیٹھتے ہیں اور صرف ا کمرادستیاب ہے۔ جب کبھی بھی بارش ہوتی ہے تو سارا پانی اندر داخل ہوجاتا ہے ،ہم انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں سکول کی عمارت فراہم کی جائے جہاں ہم اپنی تعلیم حاصل کر سکیں۔ آٹھویں جماعت کے طالب علم پریتم سنگھ نے بتایا جب کبھی کوئی بچہ بیمار ہوتا ہے تو وہ سکول میں موجود مٹی سے ہوتاہے۔ سکول میں بیٹھنے کیلئے ڈیسک تک دستیاب نہیں ہیں اور بچے مجبور ہوکر مٹی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سکول کے حکام نے بتایاکہ نئی عمارت مکمل تو ہے لیکن ہمیں بلڈنگ نہیں دی جارہی ہے۔ اگرچہ ہم نے کئی مرتبہ اعلیٰ حکام کو اس معاملے کولیکر آگاہ بھی کیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اگرچہ سکول کیلئے عمارت چھ سال قبل تعمیر ہوئی ہے لیکن زمین مالک کا معاوضہ کو لیکر مسئلہ بنا ہوا ہے اور اسنے وہاں گھاس جمع رکھی ہے، عمارت کو خالی نہیں کیاجارہاہے جبکہ وہ معاوضہ و نوکری کا مطالبہ کررہا ہے۔ چنگام کے سرپنچ اوم پرکاش نے بتایا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہائی سکول ہمارے علاقے میں قائم ہواہے۔سکول میں تدریسی عملہ موجود ہے تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ تو کے جارہے ہیں لیکن ان علاقہ جات میں زمینی حقایق سے عیاں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سے قبل پندرہ مرتبہ انتظامیہ کی نوٹس میں معاملہ لایا لیکن کچھ نہ بن سکا۔ یہ حکمرانوں کی نااہلی ہے جس کا خمیازہ آج ہمارے بچوں کوبھگتنا پڑرہاہے۔ہم ایل جی انتظامیہ سے ذاتی طور مداخلت کی اپیل کرتے ہیں تاکہ بچوں کی تعلیم مزید متاثر نہ ہو۔
ُPackage