ریاستی سرکار کی طرف سے22فروری کو جاری کردہ گیسٹ کنٹرول آرڈر، جس کا اطلاق یکم اپریل 2017سے معین تھا، کے با مقصد اطلاق پر بادل منڈلانے لگے ہیں ،کیونکہ امور صارفین و شہری رسدات کے وزیر، جنہوں نے یہ آرڈر جاری کیا تھا، نے کہا ہے کہ مذکورہ حکمنامہ کوئی آسمانی حکمنامہ نہیں جس میں ترمیم نہ ہوسکے۔ وزیر موصوف کا یہ کہنا درست ہوسکتا ہے کیونکہ ہر صورتحال کو اُبھرنے کےلئے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُنہوں نے یہ بات مختلف سماجی حلقوں کے ساتھ گیسٹ کنٹرول آڈر پرتبادلہ خیال کے دوران کہی ہے، جس میں ظاہر ہے کہ مختلف آراء سامنے آئی ہونگی۔وزیر موصوف کا یہ کہنا کہ مذکورہ حکمنامہ ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں، کسی حد تک وضاحت طلب ہے، کیونکہ اس حوالے سے سال2004میں ایک آڑر جاری ہواتھا، جس کو بعد اذاں ریاستی ہائی کورٹ نے التویٰ میں رکھا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ التویٰ کچھ متعلقہ حلقوں کی جانب سے تحفظات کے اظہار کی بنیاد پر ہوا تھا، لہٰذا حکومت کےلئے نیا حکمنامہ جاری کرتے وقت ماضی کے تجربات کومدنظر رکھنا اور جائز تحفظات کو تسلیم کرنا چاہئے تھا۔ چونکہ یکم اپریل میں چند روز ہی باقی بچے ہیں اور اگر اس مرحلے پر حکمنامے کے بارے میں کنفیوژن کا اظہار ہو تو یقینی طور پر اسکے اطلاق میں روکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔حالیہ حکمنامہ پر سماجی سطح پر خیر مقدم کیا جارہا تھا کیونکہ ہمارے سماج میں شادی بیاہ کی تقاریب فضول خرچی اور اصراف و تبذیر کی آخری حدود کو چُھو چکی ہیں، جسکی وجہ سے سماج کا ایک بڑاطبقہ بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔ شادی بیاہ کی تقاریب روایتی حدود کو پھلانگ کر تام جھام ، ڈول ڈنکے اور نمود و نمائش کی ایسی منزل پر پہنچی ہے، جہاں سماجی مراتب کے اظہار کے لئے بے تحاشہ دولت لٹائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو دولت اصراف وتبذیر پر خرچ کی جائے اس کے حصول کے ذرائع کیا ہوسکتے ہیںیہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں۔ ان حالات میں سماج کا وہ طبقہ ، جسکے پاس دولت کمانے کے آسان ذرائع میسر نہیں ہوتے، اپنے سماجی مرتبے کو برقرار رکھنے کے لئے قرضوں کے دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر حکومت اصلاحی کوششوں میں سنجیدہ ہو تو اُسے ماضی میں اس اقدام کی ناکامی کی وجوہات کو مدنظر رکھ کر اس کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کرنے چاہیں۔تاکہ اس کا اطلاقمتعلقہ اداروں کی جانب سے کرپشن کا ایک نیا ذریعہ بن کے سامنے نہ آئے لہٰذا اس حکمنامے کے حوالے سے وضاحت کے ساتھ فہرست ضوابط کو سامنے لانے کی ضرورت ہے ، جس میں نگرانی کے نظام میں کسی قسم کے جھول کی گنجائش موجود نہ ہو۔ چونکہ ہمارے سماج میں شادی بیاہ کی تقاریب کا اہتمام اب ایک صنعت کی صورت اختیار کرنے لگا ہے اور متعدد لوگوں نے اس تجارت میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے لہٰذا اُن کی جانب سے اسکے نفاذ میں روڑ ے اٹکانے کی کوششیں ضرورہورہی ہونگی اور حکومت کو اس حوالے سے کسی قسم کے دبائو میں آنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ مخلوط حکومت کی اکائی بی جے پی کے کئی قائدین نے کھل کر اسکی مخالفت کرتے ہوئے اسے ہندئوں کے مذہبی حقوق میں مداخلت سے تعبیر کیا ہے جبکہ بادی النظر میں مصرفانہ رسوم پر روک لگانے کا عمل کسی بھی مذہب یا سماج میں ناجائز نہیں ٹھہر سکتا ہے۔ چونکہ جموں خطہ میں شادی بیاہ کا سیزن شروع ہواہے لہٰذا اسکے نفاذ کی آزمائش وہیں سے شروع ہوگی۔ وادی کشمیر میں شادی بیاہ کا عمومی سیزن سردیاں ختم ہونے کے بعد ہی اپنے عروج پر پہنچتا ہے تو لازمی ہے کہ حکومت کو اس وقت تک زمینی سطح پر موجود مشکلات کا بھی بخوبی اندازہ ہوا ہوگا،اس لئےیہاں اس کے بہتر طریقے پہ نفاذ کی توقع کی جانی چاہئے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی شادی بیاہ کی تقاریب میں سادگی اختیار کرنے کی مثبت تحریک حاصل کرکے معیشی طو ر پر سماج کو نقصان سے ددو چار کرنے کی روایت سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوششیں کرنی چاہئے۔ بلکہ ا س سے آگے بڑھ کر شادی بیاہ میں جہیز کے لین دین کی مذموم صورتحال پر قابو پانے میں پہل کرنی چاہئے، جس کی وجہ سے ہمارے سماج میں کم آمدن وانی طبقے کی سینکڑوں لڑکیاں ہاتھ پیلے کرنے کی آرزو لئے بڑھاپے کی حدوں کو چھو رہی ہیں۔ یہ ایک انتہائی دل شکن بات ہے کہ کشمیری سماج میں گزشتہ کچھ برسوں سے جہیزی اموات کے کئی معاملات سامنے آئے ہیں اور یہ رحجان آگے بڑھ کر نہایت ہی خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔ماضی میں سماج کےمختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ حضرات نے شادی بیاہ میں فضول خرچوں کے معاملے پر ایک محاذ بنا کر اصلاح احوال کی کوششیں کی تھیں لیکن بعد اذاں نامعلوم وجوہات کی بنا پہ انہوں نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ سماج کا سنجیدہ فکر طبقہ متحرک ہو کر اس سماجی ناسور کے خاتمہ کے لئے منظم اور بھر پور کوششیں کرے اور اس اقدام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلئے سنجیدگی اور نیک نیتی کے ساتھ سرکار کو اپنا تعاون فراہم کرے، تاہم سرکار کو بھی کسی قسم کے دبائو ، خواہ وہ سیاسی حلقوں کا ہو یا تجارتی طبقوںکا، میں آئے بغیر موجودہ فیصلے کو اعتراضات کی گنجائش سے پاک کرکے نیک نیتی کے ساتھ نافذ کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کرنا چاہئے۔