شبنم بنت رشید
تجھے پتا بھی ہے اے مسرتوں کے نصیب
میں کب سے سایہ ٔدیوار غم میں بیٹھا ہوں
میں دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ ابو بڑے توقیر والے تھے۔ ایک اونچے سرکاری عہدے پر کام کر رہے تھے۔ وراثت میں کافی زمین بھی ملی تھی، جس کی آمدنی سے گھر کے سارے چھوٹے بڑے خرچے پورے ہوتے تھے۔ گھر میں پیسہ آسانی سے میسر ہو تو گھر کی عورتیں اکثر ذکوٰۃکے عمل کو بھول کر طلائی کے زیورات خریدنے کو اپنا پہلا فرض سمجھ کر نہ کوئی کوتاہی کرتیں ہیں اور نا ہی کوئی کنجوسی۔
میری امی کو بھی طلائی کے زیورات سے عشق تھا۔ وہ ہمیشہ سے ہر مہینے نئے نئے ڈیزائین کے زیورات خرید خرید کر اپنے کمرے کی الماری اور بنک لاکر بھرتی رہی۔ عمر کے ساتھ ساتھ اسکا یہ شوق بڑھتا ہی گیا۔ اسکا ماننا تھا کہ پیسہ ہاتھ میں آتے ہی سب سے پہلے سونا خریدنا سمجھداری کا کام ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے اکثر سمجھدار شہری حضرات تو حسرت بھری نگاہوں کو نظرانداز کر کے اپنی بیٹیوں کو شادی کے دن سر سے لے کر پاوں کی ایڈیوں تک سونے کے زیورات کی ڈیکوریشن کر کے پھر انہیں سوشل میڈیا کی زینت بنا کر اپنے ہی معاشرے کے معاشی طور پر کمزور اُن والدین کی نیندیں اور دل کا سکون چھین لیتے ہیں جن کے لئے اپنی بیٹیوں کے لئے ایک سونے کا چھلہ خریدنا بھی محال ہوتا ہے۔
میں ڈیوٹی سے ابھی ابھی لوٹی تھی۔ چائے پی کر میں اپنے بیڈ پر لیٹی اپنے بازو سے اپنی آنکھوں کو ڈھانپے ہوئے تھی کہ اسی دوران میرے فون کی رنگ بج اٹھی۔ اس سے پہلے کہ میں فون اٹھاتی فون کٹ گیا۔ شاید صنوبر کا فون ہوگا میں نے اندازہ لگایا۔ چیک کیا تو واقعی صنوبر کا ہی فون تھا۔ صنوبر میری ایک دوست تھی اس کا تعلق ایک غریب گھر سے تھا۔ وہ اسکول سے لے کر کالج تک میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ کالج کی پڑھائی کے دوران اسکے ابا کی ڈیتھ ہوگئ تو اسے مجبوری کی حالت میں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑھی۔ اس کے بعد وہ معصوم کسی نہ کسی گھریلو مسئلے میں الجھتی رہی۔ وہ مسلسل میرے رابطے میں رہی۔ اسلئے میں نے اکثر موقعوں پر اسکی بھر پور مدد کی۔ مگر کسی کی مدد سے کسی کے حالات زندگی یا قسمت تھوڑی بدل جاتی ہے۔ پھر بھی صنوبر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ مسائل میں الجھے رہنے کے باوجود وہ کافی مطمئن اور خوش نظر آتی تھی۔ مگر اسکی بے بسی سے میری آنکھیں ضرور نم ہوجاتی تھیں۔ کیوں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان اتنا بڑا فرق رکھا ہے؟ کیوں کچھ لوگ دولت کے دم بھر بھر کے زندگی گزارتے ہیں اور کیوں کچھ لوگ صرف امیدوں پر زندگی کا گزارہ کر کے زندگی گزارتے ہیں؟ انکا کیا قصور ہوتا ہے؟ صنوبر کو واپس فون کرنے کی بجائے سوچنے لگی تو وقت گزرنے کا پتہ ہی نا چلا۔ پھر سونے کی کوشش کرنے لگی تو مغرب کی اذان ہوئی تو میں اُٹھ کے بیٹھ گئی۔
دوسرے دن چھٹی تھی۔ فجر کے بعد میں کافی دیر تک سوئی۔ نہ جانے کیوں میری آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ امی میرے کمرے میں اپنا ایک مخصوص بیگ لے کر داخل ہوئی۔ پھر بیڈ کی ایک سائیڈ پر بیٹھ کر پیسوں کی گڑیوں کو ٹھونس ٹھونس کر بیگ میں بھرتے بھرتے کہنے لگی اُٹھ میری جان کافی دیر ہوچکی ہے۔ ناشتہ کر لو تمہیں آج میرے ساتھ بازار چلنا ہے۔ شادی میں بہت ہی کم وقت رہاہے۔ باہر کے حالات کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتی ہوں۔ تھوڑی بہت خریداری کرنی ہے۔ خریداری سن کر میں اٹھ کے بیٹھ گئ۔ پھر نرم لہجے میں امی سے پوچھا امی اب کس چیز کی خریداری باقی ہے؟ جس کے لیے آپ مجھے اپنے ساتھ لے جارہی ہیں۔ میرے منع کرنے کے باوجود شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی آپ نے اور بھیا نے شاپنگ کی ایک ایسی مہم چلائی جیسے مجھے گھر سے گھر تک نہیں بلکہ کسی بڑے محاذ پر جانا ہے۔ گھر کے اکثر کمرے تو میری شادی کے سامان سے بھر گئے ہیں۔ کیا ابھی بھی کوئی چیز خریدنا باقی رہ گئی ہے؟ نہیں میری جان ایسی کوئی بات نہیں تمہیں، یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میں نے ایک ایک چیز خریدکر سمیٹ رکھی ہے۔ مگر آج میں غضنفر کی امی کے لئے سونے کا ایک بڑا اور نئے ڈزاین کا سیٹ خریدنے جارہی ہوں جو تم انہیں اس وقت پیش کروگی جب وہ تمہارا گھونگھٹ ہٹایئں گی۔ یہ نہایت ہی اہم اور ضروری رسم ہوتی ہے۔ اس وقت دلہن کے ارد گرد بیٹھی سسرالی رشتدار عورتوں کی دلہن پر کڑی نظریں رہتی ہیں۔ جتنی اچھی معیاری اور بھاری چیز دلہن اپنی ساسو ماں کے لئے لائے گی اتنا ہی زیادہ سسرال والوں پر دباؤ رہتا ہے۔ ورنہ عمر بھر باتوں کے تیر سائے جاتے ہیں۔ امی مجھے کسی ناداں بچے کی طرح سمجھانے لگی۔ میں نے امی کو سمجھانے کے غرض سے پھر ایک بار کہا امی یہ سراسر غلط ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ میں ایک الگ مزاج کی لڑکی ہوں اسلئے میرے سامنے ان فضول رسموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نا ہی کبھی رہے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ اسلئے تم اپنی ماں کا دل دکھانا چاہ رہی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ دنیا دیکھی ہے۔ امی نے غصے بھرے لہجے میں کہا اور کمرے سے نکل گئی۔ اس میں دل دکھانے والی کون سی بات تھی؟ میں اپنے آپ سے بہت دیر تک سوال پوچھتی رہی۔
تعلیم سے فراغت پائی تو پھر کڑی محنت کرکے گاڑی سمیت نوکری ملی۔ نوکری ملی تو شادی کا موسم آن پہنچا۔ دنیا میں اس سے زیادہ خوبصورت کوئی احساس ہے ہی نہیں۔ مجھے اپنے امی ابو پر بھروسہ تھا۔ لحاظہ انہیں کی پسند سے غضنفر کے ساتھ میرا رشتہ طے ہوا۔ مجھے میرا نصیب ملا تو میں کافی مطمئن تھی کیوں کہ غضنفر کے گھر والے عزت دار اور سلجھے ہوئے لوگ تھے۔ انکی طرف سے نہ کوئی مسئلہ تھا اور نا ہی کوئی ڈیمانڈ۔ آج تک جو کچھ ہورہا تھا میری منشہ کے مطابق ہورہا تھا۔ مگر شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی امی بھیا کو ساتھ لے لے کر فضول کے خرچے کر کر کے میرے لئے جہیز کے انبار لگا رہی تھی، جس سے میں اندر ہی اندر کافی ڈسٹرب ہوئی۔
اگلے دن شام ڈھلتے ہی امی ابو کو ساتھ لے کر میرے کمرے میں آئی۔ امی کے ماتھے پر بے شمار بل تھے اور مُوڈ بھی اچھا نہ تھا، انہیں دیکھ کر میں گھبرا گئ۔ شاید امی ابھی بھی غضنفر کی امی کے لئے سیٹ خریدنے پر تلی ہوئی تھی۔ وہ میری طرف اپنا پشت کرکے بیٹھ گئ اور سامنے ابو سے کرسی پر بیٹھتے ہی مخاطب ہوکر کہنے لگی ذرا سمجھائو اپنی ناداں بیٹی کو کہ اس کا اور ہمارا سماج میں کیا معیار ہے۔خاندان کتنا اونچا ہے۔ ہمارے ساتھ ساتھ اسکے سسرال والوں کا حلقہ احباب کتنا وسیع ہے۔ یہ بھی سمجھا دو اس نا سمجھ لڑکی کو کہ ملبوسات، جہیز، زیور، ظیافتیں، دعوتیں، عزیز واقارب، یار دوست، مہمان، ملنا، ملانا، خوشیاں منانا، فوٹوگرافی، ناچ گانا اور مبارکبادیاں سمیٹنا اسی کو تو شادی کہتے ہیں اور شادی کا دن کتنا خاص اور اہم ہوتا ہے اس موقع پر جتنا خرچ کیا جائے کم ہی ہوتا ہے۔ ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے اور کیوں ہم اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ بھیج کر اپنی ناک کٹوا کر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع دیں؟
اور اسے یہ بات معلوم نہیں کہ جب زندگی میں نازک موڑ آتے ہیں، بُرا وقت آتا ہے تو پھر جہیز میں ملنے والی ایک ایک چیز کی قدر آتی ہے، خالی ہاتھ آج تک کس کا بھلا ہوا ہے؟ امی کے لہجے سے صاف صاف ہٹ دھرمی اور غرور ٹپک رہا تھا۔
ابو کافی سنجیدہ اور کم گو انسان تھے، انہوں نے امی کی باتیں غور سے سن لیں اور پھر اپنی خاموشی توڑ کر مجھ سے کہا، کیوں اپنی امی کو تنگ کر رہی ہو جگر؟ تمہیں معلوم نہیں کہ کس طرح اس نے ایک ایک چیز کی فہرست بنا کر ساری ذمہ داری اپنے سر لی ہے، کچھ کچھ اہم چیزیں تو اس بیچاری نے باہر سے منگوائیں، تاکہ آنے والی زندگی میں تمہیں کوئی وقت نہ ہو اور کسی کو باتیں بنانے کا موقع نہ ملے۔ مگر میری آنکھوں کے سامنے صرف صنوبر کا چہرہ مچل رہا تھا اسلئے آنکھیں نم ہوئیں اور گلے میں پھندا سا لگ گیا۔ میری حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی، پھر بھی میں نے کسی حد تک خود کو سنبھالا اور ایک گہری سانس لے کر التجایئہ انداز میں کہا، دیکھیے ابو آپ جانتے ہیں کہ میں کس مزاج کی لڑکی ہوں، میری فطرت اور مزاج بالکل الگ ہے، ہمیں آنکھیں موند کر نہیں چلنا چاہیے، نہ کچھ نظر انداز کرنا چاہیے خاص طور پر شادی بیاہ کے موقعوں پر۔
کیوں ہم اپنے ہی معاشرے میں ایک لڑکی کے لئے گھر سے گھر تک کے سفر کو مشکل بنا رہے ہیں؟ کیوں نہ ہم اسے آسان بنانے کی پہل خود سے کریں۔ ابو نے میری بات سن کر مجھ سے کہا بیٹا کوئی تمہیں سمجھے یا نا سمجھے میں تمہیں سمجھ گیا، میں تمہارے ساتھ ہوں، مجھے تم پر فخر ہے، ابو نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔ بس ابو میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ابو کی باتیں سن کر امی کو غصہ آیا اور وہ کچھ بڑبڑاتے ہوے کمرے سے نکل گئی۔
امی کے مُوڈ سے میں واقف تھی اور دو تین دن کے بعد انکا مُوڈ بحال ہوا، ایسے محسوس ہورہا تھا کہ میرے گرد و پیش مچل رہے ہو۔
شادی سے کچھ دن پہلے ہی صنوبر ہماری خوشیوں میں شامل ہونے کے لیے ہمارے گھر آئی۔
گھونگھٹ کی اوٹ میں مسکراہٹوں اور پرسکون ماحول کے بیچ میں نے بھی آسانی سے گھر سے گھر تک کا سفر طے کیا۔
ماشاءاللہ ماشاءاللہ! اونچا عہدہ اور بڑے باپ کی بیٹی، واقعی ایسی ندامت اور سادگی کی مثال ملنا مشکل ہے، چاندی کے زیور، میچنگ شرارہ سوٹ اور کانچ کی چوڑیوں کے ساتھ ہلکا ہلکا میک اپ، کتنی نئی اور نرالی سوچ، یہ میں خود کو نہیں بلکہ میرے گرد بیٹھی عورتیں، سراہنے کے انداز میں مجھے سراہ رہی تھیں۔
���
پہلگام،کشمیر،موبائل نمبر؛ 9419038028