ایم شفیع میر
اِس تلخ حقیقت سے کسی بھی طور فرار حاصل نہیںکہ وطن عزیز میںمسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے یا مجروح کرنے کیلئے کسی نہ کسی بہانے ہندو انتہا پسندوں نے توہین آمیز حرکتیںانجام دیں۔حالیہ توہین آمیزواقعہ وطن عزیز کا رونما ہونے والا کوئی پہلا واقعہ تو نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جائے بلکہ آئے روز نفرت کی غذا پر پلنے والے بیمار اور فسطائی ذہنیت عناصر کبھی مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے دکھائی دے رہے ہیںاور کبھی مسلمانوں کے آقائے نامدار رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ؐکی شان میں گستاخانہ بیان بازی کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔یوںتو ہمارے ملک ہندوستان میں تمام مذاہب کو یکساںحقوق اور تمام مذاہب کا احترام قانون کی کتابوںمیںلازمی قرار دیا گیا ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ اصول اب محض اقلیتی طبقے کیلئے ہی لازمی ہیں یعنی صرف مسلمانان ِ ہند کیلئے لازم و ملزوم ہے کہ وہ دوسرے مذاہب ،مذہبی رہنماؤں اور مذہبی کتابوںکا احترام بجا لائیں۔ دیگر مذاہب کو یہ کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جب چاہیںاور جو چاہیںمسلمانوںکے مذہب،مذہبی رہنما اور مذہبی کتاب کے بارے میں کہہ ڈالیں،اُن کے لئے قانون کی کتاب محض کاغذ وںکا ایک بے مطلب کا پلندہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئے روز بڑی ہی بے پرواہی اور بغیر کسی ڈر و خوف کے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میںسرکار ی مداخلت ایک معمول بنا دیا گیا ہے۔خیر مسلم دشمنی کی یہ گھٹائیں اپنی جگہ لیکن خود مسلمانان ِ وطن کا اپنے احوال کیا ہیں،یہ ایک توجہ طلب مسئلہ ہے جس پر غور وفکر کرنا مسلم رہنمائوں کا اولین فرض ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
گوکہ مو جودہ وقت ہر مسلمان کیلئے اپنے اللہ اور اللہ کے رسولؐ کیساتھ محبت کو پیش کرنے کا امتحان ہے، لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ وقت کا مسلمان زبانی جمع خرچی اور محض دعویداری کی کسوٹی پر کھڑا ہوکر اپنے اللہ اور اپنے نبی اکرمؐ کیساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے پر عمل پیرا ہے۔عشقِ محمدؐکے دعوے اور اِن دعوؤں کی عملی شکل کا موازنہ کرتے ہوئے اگر ہر ایمان والا اپنے گریبان میں جھانک کر محاسبہ کرے تو حالات انتہائی قابلِ رحم نظر آئیں گے۔ ’’بے شک ہمارا رَبّ سب سے بڑا مہربان اور رحم والا ہے‘ ‘۔جی ہاں!یہ پیارے ربّ ِ تعالیٰ کا ہی کرم ہے کہ ہم جیسے مکار اور عشق محمدؐکے جھوٹے دعویداروں کو ابھی بھی ایسے ایسے مواقعے نصیب فرما رہے ہیں تاکہ ہم اپنی محبت کا عملی ثبوت پیش کر سکیں۔ لیکن ہمارے دِل و دماغ پر دنیاوی محبت کا بھوت اِس قدر سوار ہو چکا ہے کہ ہم ہردنیاوی کام کو دین حق کے مقابلے میںاہم سمجھتے ہیں۔کاش !راقم کو بھی اتنا کچھ لکھنے کے بجائے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عشق محمدؐ کا عملی ثبوت پیش کرنے کی توفیق عطا کی ہوتی۔ دعا گو ہوںکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیںدین ِحق میں صرف ہونے کیلئے قبول فرمائے،تاکہ ہماری یہ تحریریںاور تقریریںاثر انداز ہوجاتیں۔
توہین ِرسالتؐکے خلاف جہاں دنیا بھر میںاحتجاجی مظاہرے ہوئے وہیں جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھی جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے اپنی ناراضگی ظاہر کی اور حکومتِ وقت سے مانگ کی کہ وہ اپنی نفرتی شعبے کے ذمہ داران کو سمجھا دیں۔بیرون ممالک کی طرح جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھی بلا کسی تفریق اور مسلکی جھنجٹ سے بالاترہوکر عشقِ محمدؐمیں اتنا کام تو کر دکھایا لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلم لیڈران اِس ناقابلِ برداشت واقعہ پر مکمل طور خاموش رہے۔چند ایک نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیؐکیساتھ اپنی محبت کو یہاں تک ہی محدود سمجھا کہ چلو ایک اخباری بیان دیکر اپنے سر سے عشق محمدیؐکا بھوت اُتار دیا جائے تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہم واقعی محمدؐ کے سچے اور پکے عاشق ہیں۔ملک کی حکمران جماعت پارٹی کے دو عہدیداران کی جانب سے ہمارے پیارے نبی ؐکی شانِ اقدس میں توہین آمیز بیان بازی ایک سچے اور پکے مسلمان کیلئے کسی سانحہ اور المیہ سے کم نہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ،المناک اور شرمناک امر یہ ہے کہ اتنے بڑے گستاخانہ عمل پر جموں و کشمیر کے مسلم لیڈران نے خاموشی کا روزہ نہیںتوڑا، شائد وہ جام ِ سیکولرزم پی کر مدہوش ہو چکے ہیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مسلمان اور ایمان والے کیلئے یہ ایک زبردست امتحان کی گھڑی ہے۔ افسو س کہ یہ حقیقت ہم کمزور ایمان والوں پر بلآخر عیاں ہوہی گئی کہ اِس امتحان میں ہم مکمل طورناکام ہوگئے۔موت اٹل ہے اور ہر جاندار نے موت کا مزا چکھنا ہے لیکن ایک مسلمان کا اِس بات پر ایمان ہے کہ موت کے بعد اُسے زندہ ہونا ہے جب اُس نے دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کا حساب بھی دینا ہے۔جب یہ پوچھ ہوگی کہ زندگی کے وہ قیمتی ایام آپ نے کہاں صرف کئے ہیں،جن ایام میں آپ کو ابدی زندگی سنوارنے کے مواقعے فراہم کئے گئے تھے۔تووائے افسوس! ہم جیسوں کیلئے سوائے رُسوائی کے کیا ہوگا؟
میرے پیارے مسلم لیڈرو! کیا تمہارے پاس کوئی جواب ہے ؟یقیناتوہین رسالتؐپر جس خاموشی کا افسوسناک مظاہرہ کر کے آپ ائیر کنڈیشنرکمروں میں آرام فرماتے ہوئے مست رہے یہی خاموشی اور مستی اُس وقت بھی آپ پر طاری رہے گی ؟جب ہم اپنے پیارے اللہ کے سامنے جوابدہ ہونگے ،یہ دنیاکا اثر و رسوخ اور اپروچ دھرے کادھرا رہ جائے گا۔ہمیں یہ معلوم ہے کہ اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ خاموش کیوں رہے تو آپ ضرور اپنی عقلمندی کا ڈنڈھورا پیٹتے ہوئے کہیں گے کہ اگر ہم کچھ کہتے تو فسادات برپا ہوجاتے لیکن جموں و کشمیر کے مسلم لیڈرو !آ پ کی رہبری پر یہ سوال اُٹھتا ہے کیا آپ اِس گستاخانہ ماحول کو امن سے تعبیر کر رہے ہیں ؟ کیا اپنے پیارے نبی ؐکی شان میں گستاخی اور پھر اُن گستاخوںپر کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ ہونے کو امن امان سمجھتے ہیں۔اگر آپ میں سیاست کے علاوہ ایمان کا تھوڑاسا جذبہ بھی کہیں باقی ہے تو اس توہین آمیز ماحول میں آپ خاموش نہیںرہ سکتے۔ان دنوںآپ نے نمازیںبھی ادا کی ہونگی ، باقی دنوںکے مقابلے اللہ کے حضور زیادہ گوہار بھی لگائی ہوگی لیکن شائد آپ یہ دعا کرنا بھول گئے کہ’’ اے ہمارے پروردگار ہمیںاپنے پیارے نبی ؐ کیساتھ محبت کے اظہار کا عملی ثبوت پیش کرنے کی توفیق بھی عطا کر ، شائد دعا قبول ہوتی اور آپ اس کڑکتی دھوپ میںگھروں سے نکل کرپُر امن احتجاج میںشمولیت کرتے۔
افسوس صد افسوس!!خصوصی پوزیشن، روزگار کی فراہمی اورریاست کی بحالی کیلئے آپ سال سال بھر گھروں میں قیدی بن کر رہے لیکن یہاں ناموسِ رسالتؐکی خاطر ایک گھنٹے کیلئے پُر امن احتجاجیوں کیساتھ کھڑا ہونے میں آپ کو شرم محسوس ہورہی ہے ۔آپ کو ڈر ہے کہ اپنے پیارے نبیؐکی محبت میں کھڑا ہونے پر کوئی آپکو فسادی نہ کہہ دے، کوئی آپ کو دھنگائی نہ کہہ دے ،آپ کو اپنی ذات پر اتنا غرور ہے کہ جس ذاتِ اقدس کیلئے یہ سارا جہاں، زمین آسمان اور دُنیا کا وجود میںلائی گئی ،اُس ذاتِ اقدس کے خلاف توہین آمیز الفاظ بکنے والےبَد زبانوں کے خلاف آپ ایک گھنٹہ کیلئے گھروں سے باہر نہیں آسکے۔ راقم کو آپ سے کسی قسم کا بیر نہیں اور نہ ہی راقم دین ِ حق پر کاربند کوئی مکمل انسان ہوں لیکن مجھے حد درجہ گلہ ہے کہ آپ کوقوم نے صرف ووٹ بٹورنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے ہر حال کی رہنمائی اور رہبری کیلئے منتخب کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کی سوچ بہتر ہے ۔آپ قوم کے تمام معاملات کو بڑے ہی غور و فکر کے ساتھ دیکھیں گے لیکن آپ کی رہبری نے آپکا یہ روپ بھی دکھا دیا کہ جس قوم کے رہبر اپنی آخرت کو سنوارنے کیلئے اتنے بے خبر اور بے فکر ہو نگے، اُس بدنصیب قوم کا تو خدا ہی حافظ ہے۔
[email protected]
7780918848, 9797110175