خالد بشیر تلگامی
تلگام ہمیشہ سے علمی، ادبی اور تاریخی شخصیات کا مرکز رہا ہے۔ اس مٹی نے ایسی نادر ہستیوں کو جنم دیا ہے جنہوں نے اپنی فکر، فن اور عمل سے زمانے کو روشنی عطا کی ہے۔ یہ سرزمین صرف داستانوں اور تاریخ کا خزانہ ہی نہیں بلکہ علم و ادب کاایک ایسا سرچشمہ رہی ہے جہاں ہمیشہ سے فکری تازگی اور ادبی خوشبو پھیلی ۔ ان ہی روشن ناموں میں رنجور تلگامی بھی شامل ہیں جو اپنی غزلوں اور شاعری سے قلب کو گرماتے اور فکر کو جلا بخشتے ہیں۔ان کا کلام نہ صرف رومانیت کی دلکشی لئے ہوئے ہیں بلکہ انسانی جذبات اور احساسات کی گہرائیوں میں بھی جھانکنے پر مجبور کرتاہے۔ وہ تلگام کی ادبی روایت کے امین ہیں اور اپنی فنکارانہ بصیرت کے باعث آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
رنجور تلگامی ،جن کا اصل نام عبدالخالق وانی ہے، ایک ایسے شاعر، نقاد،ڈراما نگاراور مترجم ہیںجنہوں نے اپنی رنگا رنگی ادبی اور ثقافتی خدمات سے کشمیری زبان و ادب کونئی جہتیں عطا کی ہیں۔ آپ تلگام پٹن، ضلع بارہمولہ کے رہائشی ہیں۔ تعلیمی لیاقت ایم اے ، بی ایڈ آنرس (کشمیری) اور پنجابی زبان میں ڈپلوما (CIILمیسور) ہے۔ بطور پیشہ لکچرار رہے اور بعد ازاں ریٹائر ہوئے۔ آپ قومی سطح پر 2008میں ’’قومی شاعر‘‘ کے اعزاز سے بھی نوازے گئے۔ ادبی مرکز کمراز (JK) کے سابق ایگزیکیوٹیو ممبر، کشمیر ینگ رائٹرس ایسوسی ایشن کے بانی اور سرپرست ، کشمیر لٹریری اینڈ کلچرل آرگنائزیشن ، سری نگر کے نائب صدر، مہجورفاؤنڈیشن کے ایگزیکیوٹیو ممبر،، جریدہ Vyethکے چیف ایڈیٹر اور Gaashکے ایڈیٹر کے طور پر آپ نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ آپ کی شائع شدہ کتب میں کلامِ رنجور، احمد پالہاجہ، نور عرفان اور بشرِ جاویدان شامل ہیں۔
رنجور تلگامی کا تازہ شعری مجموعہ ’’گوواو پریشان‘‘ ایک ایسا ادبی تجربہ ہے جو غزل اور نظم کے ذریعہ انسان کی روح کی پرتوں کو چھوتا ہے۔ شاعر نے اسے اپنی ’’تنہائی‘‘ کے نام معن ون کیا ہے۔ وہی تنہائی جو ان کے تخلیقی وجود کو مضبوطی بخشتی ہے اور زندگی کی راہوں میں حوصلہ دیتی ہے۔ کتاب کا آغاز ایک ایسے شعر سے ہوتا ہے جو قاری کوشاعر کے ذاتی کرب ، تجربے اور ایمان کی روشنی سے متعارف کراتاہے۔
زمانَن ییلہ زمینَس ٹھاسہ نووُس
پَننی دوریایےپردیو ما بچووُس
بہر صورت پورُم الحمد اللہ
لُکَو ترووُس خدایَن ما سا ترووُس
یہ شعر زمانے کی سختیوں اور اپنوں کی بے رخی کے باوجود ایک دل کی استقامت اور شکر گزاری کی تصویر پیش کرتا ہے۔ شاعر اپنی محرومیوں کو بھی عطیہ سمجھتا ہے اور سہارا صرف اللہ کی ذات کو مانتاہے۔ ’’گوواو پریشان‘‘ میں دُکھ اور کرب کو مایوسی میں بدلنے کی بجائے تخلیقی توانائی میں ڈھال کر قاری کو زندگی کے نئے زاویے دکھائے گئے ہیں۔ زبان وبیان کی سادگی اور تاثیر قاری کے دل کو براہ راست چھوٗجاتی ہے۔قیاسی کے فن سے مزین سرورق کتاب کو مزید وقار بخشتا ہے۔ کتاب کا عنوان بذات خود ایک علامت ہے، جس کی تہیں اتنی گہری ہیں کہ اگر ان کی تشریح کی کوشش کی جائے شاید کتابوں پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ہوا کی طرح جو نہ دکھائی دیتی ہے اور نہ پریشان ہوتی ہے۔ یہ عنوان اپنے اندر بے پایا معنویت سموئے ہوئے ہے اور قاری کو سوچ کی ایک نئی دنیا کی طرف لے جاتاہے۔
کتاب میں کشمیری زبان کی نامور شخصیات کے تاثرات شامل ہیں، جن میں فیاض تلگامی، منشور بانہالی، شہناز رشید، نورالدین ہوش، ساگر نظیر، فاروق واگوری، جی ایم ماہر اور توصیف رضا شامل ہیں۔ ان تمام اہل قلم نے رنجور تلگامی کی شاعری اور ادبی کاناموں کو نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ فیاض تلگامی کے مطابق رنجور صاحب کے اندر ایک مکمل ادیب کی تمام صفات موجود ہیں۔ شہناز رشید نے انہیں کشمیری غزل کا اسرارالحق مجاز قراردیا ہے۔ نورالدین ہوش کے بقول رنجور صاحب کو ہر موضوع پر قلم اٹھانے اور اسے فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کا منفرد ہنر حاصل ہے۔ منشور بانہالی کی نگاہ میں وہ معتبر شاعر کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ بصیرت نقاد بھی ہیں۔ ساگر نظیر اور فاروق واگوری نے بھی ان کی فکری پختگی اور فنی جدت کو کشمیری ادب کا سرمایہ کہا ہے۔کتاب کی ترتیب بڑے سلیقے اور حسنِ ذوق کے ساتھ کی گئی ہے۔ اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ تاثرات،، دوسرا حصہ حمدونعت، تیسرا غزل اور چوتھا نظم پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ دو سوسولہ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہوتاہے، جواس کی روحانی جہت کو اجاگر کرتاہے۔ اس حمد میں شاعر عاجزی اور انکسار کے ساتھ خدا کے حضور دعا گو ہے۔
ہو اللہ فاعل مختار برتر۔ژچھُکھ یزرک پَزراے بندہ پروَر
یہ جھس سائل مے کن رحمتچ نظر کر۔ژچھُکھ یزرک پزَر اے بندہ پروَریہ اشعار قاری کے دل پر ایک روحانی اثر چھوڑتے ہیں اور عاجزی و عبودیت کی راہ دکھاتے ہیں ۔ نعتیہ حصے میں شاعر اخلاقِ مصطفویؐ کی عالمگیر تاثیر بیان کرتا ہے۔
’’گوواو پریشان‘‘ محض شاعری کا مجموعہ نہیں بلکہ جذبات، احساسات اور فکری جہتوں کا حسین امتزاج ہے۔ بیشتر لوگ کسی شاعرکی کتاب پڑھنے کے بعد اسے الماری یا کتب خانے کی زینت بنادیتے ہیں، مگر رنجور صاحب کی یہ کتاب ایسی ہے کہ ایک بار پڑھنے کے بعد دل بار بار اسے دوبارہ پڑھنے کی تمنا کرتاہے۔انہوںنے اپنی شاعری میں محض جذبات اور احساسات کا بیان نہیں کیا ہے بلکہ معاشرتی حقائق اور حالاتِ حاضرہ کی عکاسی بھی نہایت دل نشیں، پر اثر اور فنی مہارت کے ساتھ کی ہے۔ ان کے کلام میں دردمندی، حقیقت نگاری اور عصری شعور کا ایسا حسین امتزاج ملتا ہے جو قاری کے ذہن و دل دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی و معاشی مسائل ، انسانی دکھ درد اور زمانے کے نشیب وفراز سبھی کچھ بڑی نفاست اور شائستگی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔
بند دار بر چھ اکثر کران ببہ کیا ونَے
ییمہ راژ پوومت چھ مرنہ سر بہ کیاہ ونے
طوطن کلیایہ زیو تہ پکھن واش کیاہ کیڈن
میقراض وڈ ونین چھے ٹکان پر بہ کیاہ ونے
یہ اشعار محض الفاظ کی بناوٹ نہیں بلکہ زمانے کے المیے اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کی جیتی جاگتی تصویر یں ہیں۔ سادگی کے باوجود ان میں جو اثر اور پیغام پوشیدہ ہے، وہ قاری کو گہری سوچ میں ڈال دیتاہے۔
رنجور تلگامی کی غزلوں کا سب سے نمایاں وصف ان کی فنی پختگی ہے ۔ وہ بحر کے تقاضوںکو کمال مہارت کے ساتھ نبھاتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں روانی، رچاؤ اور آہنگ اتنے خوبصورت انداز میں قائم رہتا ہے کہ کوئی بھی شعر بحر کے تسلسل سے باہر نہیں نکلتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مجموعے میں شامل۷۵؍ غزلیں ان کے فن اور محنت کی بھرپور گواہی دیتی ہیں۔غزلوں کے ساتھ ساتھ رنجور تلگامی کی شاعری میں ۱۹؍نظمیں بھی شامل ہیں، جو موضوعات کے اعتبار سے نہایت متنوع ہیں ۔ ان نظموں کے عنوانات ہی ان کی وسعت فکر کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے : بیاد پروفیسر محی الدین حاجنی، پاغام، گاش کر پھولہ، اَکھ نظر، کشمیر، موج ، علم وغیرہ۔ان نظموں میں ’’موج‘‘ ایک اہم اور دلگداز نظم ہے، جس میں شاعر نے ماں کی عظمت اور شفقت کو بطور استعارہ برتا ہے۔
رنجور تلگامی نے اپنی نظم’’ماں‘‘ میں ماں کے جذبۂ ایثار ، قربانی اور شفقت کو اس اندازسے پیش کیا ہے کہ قاری کے دل سے ماں کے لئے بے اختیار ایک آہ اور موصوف کے قلم کے لئے واہ نکلتی ہے۔ماں کو محبت اور خدمت کے پیکر کے طور پر بیان کرنا ان کے کلام کو اور بھی زیادہ تاثیر بخشتا ہے۔ یہ نظم اس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر نہ صرف اپنے ذاتی جذبات کو بیان کرنے پر قادر ہے بلکہ آفاقی حقائق کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بناتاہے۔
رنجور تلگامی کی ہر غزل اور ہر نظم اپنے اندر ایک جہانِ معانی اور گہرائی سموئے ہوئے ہے۔ ان کے کلام میں فنی پختگی، موضوعاتی تنوع اور جذبۂ انسانی ، اخوت و ہمدردی کا حسین امتزاج ملتا ہے۔اگر انہیں دوسرے شعرا کے ساتھ تقابلی انداز میں دیکھیں تو ان کا مقام زیادہ بلند نظر آتا ہے۔ وہ نہ صرف روایت کے امین ہیں بلکہ جدت کے بھی علمبردار ہیں۔ ان کی شاعری میں عشق کی لطافت ، ایمان کی روشنی، معاشرتی حقائق اور فنی رچاؤ باہم جلوہ گر ہیں۔ہم بلا تامل کہہ سکتے ہیں کہ رنجور تلگامی کی یہ تصنیف کشمیری شاعری کے ذخیرے میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو ادبی دنیا میںخوب خوب پذیرائی عطا کرے اور موصوف کو کشمیری زبان وادب کی مزید خدمت کرنے کا موقع اور حوصلہ عطا کرے۔ آمین