گول//کئی برسوںسے گول کے سنگلدان علاقہ میںقاضی گنڈ کٹرہ ریلوے لائن پر کا م زوروشورسے جاری ہے لیکن اس دوران یہاںپر افکان، ارکان اور پٹیل انجینئرنگ کمپنیوںنے انتظامیہ سے مل کر کھلے عام قانون کی دھجیاںاڑا رہے ہیںجس سے یہاںپر نہ صرف بچیوںکامستقبل مخدوش ہے بلکہ یہاںپر صدیوںپرانے چشمے سوکھ گئے، بستیاںاُجڑ گئیں، جنگلات ریگستان میںتبدیل ہورہے ہیںاوریہ تمام غیرقانونی کام یہاںپرانتظامیہ سے مل کرکیاجارہاہے۔ یہاںپر غیرقانونی سر سبز جنگلات کے کٹائو،زرعی اراضی بالخصوص دھان کے کھیتوںمیںزہریلا مواد ڈالنا، ندی نالوںمیں زہریلا پانی ودوسرا مواد کھلے عام ڈالنا، یہاںتک کہ تمام ایسے کام جن کی این او سی ان ریلوے کمپنیوںکوضرور ہونی چاہے لیکن ان کے پاس کسی ایک کام کی این او سی نہیںہے۔ یہاںپر دلواہ لور پنچایت میں افکان کمپنی نے ایک بیچنگ پلانٹ بیچ بستی میںنصب کیاگیا یہاںتک کہ اس پلانٹ سے صرف ڈیڈھ سو میٹرکی دوری پرایک سرکاری سکول بھی ہے ۔ بتایا جاتاہے کہ اس طرح کے بیچنگ پلانٹ بستی اور تعلیمی اداروںسے کم ازکم دوکلومیٹرکی دوری پرہونا چاہئے ۔ اس طرح سے چکنی میںبھی ایک پرائمری سکول کو کالونی کے بیچ میںرکھاگیا جہاںپربچوںکی پڑھائی سالہا سال سے متاثر ہورہی ہے۔ ان سرکاری تعلیمی اداروں کے نزدیک اس طرح کے بیچنگ پلانٹ وخلل ڈالنے والی مشینیں جس سے زہریلا گیس نکلتا ہو، شور شرابہ ہو بارے میںجب زیڈ ای او گول سے پوچھاگیاتو انہوںنے کہاکہ یہ اوپر کامعاملہ ہے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، انہوںنے کہا کہ کم ازکم دوکلومیٹر دوراسکول سے تو ہونا چاہئے تھا لیکن ہم اس میںکچھ نہیںکہہ سکتے ہیں۔ ان سے جب پوچھاگیاکہ این او سی کس نے دی ہے تو انہوںنے کہا کہ یہ بڑی کمپنیاںہیں این او سی کی بات بڑے ہی آفیسران کہہ سکتے ہیں ۔اس طرح کے زیڈ ای او گول کے غیر ذمہ دارانہ جوابات سے ایسا لگ رہا ہے کہ محکمہ تعلیم نے یہاں پر زیر تعلیم بچوںکی زندگیوںکا ایک بہت بڑا سودا کیا ہے اور ان کی زندگیوںکے ساتھ کھلم کھلا کھلواڑ کیا جا رہاہے ۔ جنگلات کی تباہی ، زرعی اراضی میں ڈمپنگ، پولیوشن وغیرہ بارے جب یہاں کے انچارج تحصیلدار سے بھی بات کی تو انہوںنے کہاکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن جب پوچھا کہ ان کمپنیوںکے پاس این او سی ہے انہوںنے کہا کہ وہ ابھی بنا رہے ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ کئی سالوںسے یہاں پر ریلوے کمپنیاںکم کر رہی ہیں بناء این او سی کی اور انتظامیہ کچھ کرنے سے قاصر ہے آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں پر اس طرح کے غیر قانونی کام ہو رہے ہیں ، قومی سرمایہ کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا جا رہاہے ، بچوںکی زندگیوںکے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے اور انتظامیہ کچھ کرنے سے قاصرہے ۔ علاقہ داڑم سے لے کر اندھ علاقہ تک مختلف مقامات پر ایچ سی سی ، افکان، پٹیل انجینئرنگ کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور کھلے عام بستیوں میں،جنگلات میں بیچنگ پلانٹ لگا کر رہے ہیں اورزرعی اراضی میں مواد کاذخیرہ کیا جا رہا ہے ، سرسبز جنگلات کا کٹائو جاری ہے اور سرکار وانتظامیہ ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ دلواہ لور میں ایک مقامی سماجی کار کن تنویر احمد نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر بیچنگ پلانٹ کو بند کر دیا گیا تھا اور بیس دن تک خود ڈی سی نے اسے غیر قانونی قرار دیا اور اسے تالا بند کردیا لیکن بیس د ن گزرنے کے بعد کیسے اس کو قانون کے دائرے میں لایا گیا اس سے ہم لوگ بھی نا واقف ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ دلواہ لور میں موجود بیچنگ پلانٹ سکول سے صرف ڈیڈھ سو فٹ کی دوری پر واقع ہے اور بستی کے بیچ ہی میں یہ نصب ہے جبکہ اس کو بستی و تعلیمی اداروں سے دوکلومیٹر دوری پر نصب کرنا لازمی ہے کیونکہ اس پلانٹ سے زہریلا دھواں نکلتا ہے جس سے انسان مختلف بیماریوںمیںمبتلا ہوتا ہے جبکہ اوپر والی بستی اس کی لپیٹ میں تو ضرور آتی ہے اتنا کچھ معلوم ہونے کے با وجود انتظامیہ کس طرح سے ان کمپنیوں سے سانٹھ گانٹھ کرتی ہے اس سے یہاں کی سادہ لوح لوگ بھی نامعلوم ہے ۔ انہوںنے کہا کہ برالا ، چکنی ودوسری جگہوں پر جتنے بھی کمپنیوں کے کام چل رہے ہیں اور کالونیاں ہیں یا بیچنگ پلانٹ ہیں تمام کے تمام غیر قانونی ہیں اور اگر انتظامیہ اورسرکار نے کوئی کارروائی نہیں کی تو ہم لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوں گے۔