سرینگر// صوبائی انتظامیہ نے لائسنس منسوخ کرنے کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے بدھ کو سرینگر میں 24قصابوں کی دکانوں کو سیل کردیا۔ محکمہ امور صارفین و عوامی تقسیم کاری نے 5روز قبل قصابوںکی دکانوں پر سرکاری نوٹس چسپاں کیں تھیں، جس میںانہیں متنبہ کیا گیاتھا کہ اگر انہوں نے اپنی دکانیں نہیں کھولیں تو اشیائے ضروریہ قانون اور شاپس اسٹیبلشمنٹ ایکٹ کے تحت انکی دکانوں کو سربمہر کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کی صبح محکمہ امور صارفین و عوامی تقسیم کاری کے انفورسمنٹ اسکارڈنے سرینگر کے مختلف بازاروں کا معائنہ کیا جس کے دوران انہوں نے دو درجن گوشت کی دکانوں کو سیل کیا۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر انفورسمنٹ ونگ مشتاق احمد وانی نے کہا کہ قصابوں کو2روز کی مہلت دی گئی تھی، اور انہیں متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے اپنی دکانیں نہیں کھولیں تو ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ان کا کہنا تھا’’ لیفٹیننٹ گورنر کے مشیر کی ہدایت پر محکمہ کے انفورسمنٹ اسکارڈ نے معراج العالم اور شیو راتری کی مناسبت سے بازاروں کا دورہ کیا‘‘۔انہوں نے کہا’’ گوشت کی پرچون دکانوں کو پہلے ہی2دنوں کے اندار دکانیں کھولنے کی ہدایت دی گئی تھی،جبکہ معائنہ کے دوران کچھ دکانیں کھول دی گئی تھیں اور کچھ بند تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انفورسمنٹ اسکارڈ نے سرینگر میں24 گوشت کی دکانیں سیل کیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی جاری رہے گی۔ دریں اثناء ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے مٰن مٹن ڈیلروں اور قصابوں کی گرفتاریاں کرنے پر غور ہورہا ہے اور اگر حکومتی فیصلہ ماننے سے قصاب اور مٹن ڈیلر بضد رہتے ہیں تو ضروری اشیاء قانون کے تحت انکی گرفتاری کا قوی امکان ہے۔مٹن ڈیلروں اور انتظامیہ کے درمیان اکتوبر کے آخر سے قیمتوں پر اختلافات ہیں۔مٹن دیلروں ،صوبائی انتظامیہ کے درمیان26 فروری کو قیمتوں کا جائزہ لینے کی دوسرے رائونڈ کی میٹنگ بھی ناکام ہوئی،جس کے دوران سرکار نے قصابوں کو515روپے فی کلو گوشت کی پیشکش کی تھی۔ وادی میں فی الوقت گوشت کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی ہے،تاہم صارفین کا کہنا ہے کہ ہوٹلوں اور ریستورانوں کے علاوہ سرمایہ داروں کو اضافی قیمتوں پر گوشت کی فراہمی جاری ہے اور بیماروں اور ضرورت مندوں کیلئے گوشت نایاب ہوگیا ہے۔