سرینگر //ریاست کے اہم مالیاتی ادارے جے کے کشمیر بنک کو پبلک سیکٹر ادارہ بنائے جانے کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کشمیراکنامک الائنس نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس فیصلے کو واپس نہیںلیا گیا تو ریاست گیر ایجی ٹیشن شروع کی جائے گی، جس کو روکنا گورنر کیلئے مشکل ہوگا ۔الائنس نے الزام لگایاکہ گورنر انتظامیہ نے بنک کی خود مختاری اورریاست کی اقتصادی ترقی کوختم کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران کشمیر اکنامک الائنس چیئرمین حاجی محمد یاسین خان نے کہا کہ یہ خودمحتار ادارہ لوگوں کا ہے اور اُس میں ریاست کے لوگوں نے پیسہ جمع کیا ہے ۔محمد یاسین خان جو کہ کشمیرٹریڈرس اینڈ مینو فیکچررس فیڈریشن کے صدربھی ہیں، نے گورنر انتظامیہ سے سوالیہ انداز میں کہا ’’ اگر اس بنک کو پبلک سیکٹرادارہ بنایا گیا ’’تو اُن کے پیسے کی حفاظت کی ضمانت کون دے گا ‘۔ انہوں نے کہا کہ جے کے بنک ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس سے قبل جیتے بھی ریاست کے خود مختار اداروں کو پبلک سیکٹر ادارہ بنایا گیا اُن کی حالت تباہ ہو گئی۔ انہوں نے گورنر سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آخر انہیں کیونکر 80سال بعد اس ادارے پر پیار آیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ بنک جموں وکشمیر کے لوگوں کا ہے جنہوں نے اس کو اپنی محنت سے بنایا اور اپنا پیسہ یہاں جمع کیا ۔یاسین خان نے کہا کہ ریاست میں قائم کردہ پبلک سیکٹراداروں بشمول اسٹیٹ فائنانشل کارپوریشن،سڈکو،جے کے ایس آرٹی سی،جے کے انڈسٹریزاوردوسرے ایسے اداروں کی کیاحالت ہے ،وہ ہم سب کے سامنے عیاں ہے ۔انہوں نے سوالیہ اندازمیں کہاکہ ایس ایف سی اورسڈکوجیسے اداروں نے یہاں ترقیاتی عمل میں کیارول اداکیا؟۔حاجی محمدیاسین خان نے کہاکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پبلک سیکٹرادارے ریاستی خزانہ عامرہ پربوجھ بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی ایک ادارہ آج تک منافع بخش نہیں بن سکا۔انہوں نے کہا کہ بنک کو آرٹی آئی کے دائرے میں لانے سے انہیں کوئی حرج نہیں ہے اور ہم اس کے خلاف بھی نہیں ہیں تاہم یہ فیصلہ ریاست جموں وکشمیرمیں نوجوانوں کیلئے روزگارفراہم کرنے کے راستوں اورترقیاتی عمل کیلئے ایک آخری کیل ثابت ہوگا۔انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیرواحدریاست ہے جس کااپناایک قائم کردہ بینک ہے ،اوریہ بینک مہاراجہ کے دورمیں قائم کیاگیاتھاتاکہ ریاست میں تعمیروترقی اوراقتصادیات کوایک نئی جہت مل سکے ۔انہوں نے سوالیہ انداز میں گورنر ستیہ پال ملک سے کہا ’’ کیا آپ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں ،کیا اس سے آپ خطوں کے درمیان لوگوں کو لڑانا چاہتے ہیں‘‘ ۔انہوں نے کہاکہ گورنرراج ایک عارضی انتظام یاجزوقتی نظام ہوتاہے اورایسے نظام میں بڑے فیصلے نہیں لئے جاتے بلکہ انہیں بجلی، سڑک اور پانی جیسے معاملات دیکھنے ہوتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ریاستی انتظامی کونسل یاگورنرانتظامیہ نے جموں وکشمیربینک کی خودمختاری کوختم کرنے کاجوفیصلہ لیاہے ،وہ کسی بھی طبقے کوقابل قبول نہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ عوامی نمائندے اس پر بات نہیں کر رہے ہیں یہاں کے سٹیک ہولڈر اس پر بات نہیں کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ بنک ہماری وجہ سے بنا ہوا ہے کیونکہ ہم نے لوگوں سے پیسہ لیا اور اس وجہ سے یہ بنک اتنی اونچائی پر ہے ۔ یہ گورنر انتظامیہ یا پھر کسی سرکار کی محنت اور جادو کی چھڑی سے اتنی اونچائی پر نہیں پہنچا ہے۔یاسین خان نے کہا کہ جے کے بینک ریاست کاایساواحدادارہ ہے جواسٹاک ایکسچینج میں ہماری نمائندگی کرتاہے ۔انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیربینک نے یہاں مختلف شعبوں کی ترقی میں کلیدی رول اداکیاہے ،اوراس مقصدکیلئے اس بینک نے یہاں مختلف طبقوں کو25ہزارکروڑروپے بطورقرضے کے فراہم کئے ہیں جبکہ بھارت کے باقی بنکوں نے 10فیصدکارول بھی ادانہیں کرپائے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم کسی کے ترجمان نہیں ہیں لیکن سال2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد ہم اس قدر اقتصادی طور پر کمزور ہوئے تھے تو اُس وقت اللہ کے بعد صرف جے کے بینک لوگوں کی مدد کیلئے آیا ۔انہوں نے کہاکہ جے کے بینک ہمیں مفت میں قرضہ فراہم نہیں کرتا بلکہ ہم سے سودوصول کرتاہے اوراس طرح سے اپناکام بھی چلاتا ہے اور اس طرح جب ریاست کسی مالی مشکل یابحران کی شکارہوجاتی ہے توجموں وکشمیربینک ہی ریاستی سرکارکی مددکیلئے آگے آتاہے ۔ انہوں نے کہا کہ گورنرانتظامیہ نے جے کے بینک کی خودمختاری اورریاست کی اقتصادی ترقی کوختم کرنے کی ٹھان لی ہے ۔