۔6اگست 2018 ء کے روز بھارت کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں ایک بار پھر دفعہ 35 اے پہ سنوائی ہو گی ۔ پہلے کی سماعتوں میں اور 6؍ اگست 2018ء کی سماعت میں یہ فرق ہے کہ جہاں پہلے ریاستی سرکار کے وکلا اِس دفعہ کا دفاع کرنے کیلئے موجود رہتے تھے، وہیں 6 اگست 2018ء کو ریاست میں گورنر راج ہونے کے سبب اِس دفعہ کا موثر دفاع ہونے کے بارے میں خدشات کا ذکر ہو رہا ہے چونکہ گورنر دہلی سرکار کا نمائندہ ہوتا ہے اور گورنر سے یہ توقعہ رکھنا کہ وہ ریاست کی آئینی حیثیت کا دفاع کریں گے ،بعید از امکان ہے ۔ظاہر ہے کہ گورنر کی انتظامیہ وہی رُخ اختیار کرے گی جو دہلی سرکار کا رُخ ہو گا اور یہ عیاں ہے کہ یہ رخ اطمینان بخش نہیں ہو سکتا۔ پچھلی سماعتوں میں جہاں ریاستی سرکار کے وکلا دفعہ 35 A کے ضمن میں ریاست کی آئینی حثیت کا دفاع کر رہے تھے وہی دہلی سرکار کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کوئی واضح پوزیشن لینے سے گریز کر رہے تھے حالانکہ ریاست جموں و کشمیر و سرکار ہند کے مابین آئینی رشتوں کا تقاضا یہی تھا کہ وہ وہی پوزیشن اختیار کرتے جو کہ ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل کی پوزیشن تھی ۔ماضی کی ورق گردانی سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دفعہ 35 A ریاست جموں و کشمیر و گورنمنٹ آف انڈیا کے مابین ایک سیاسی سلسلے سے منظر عام پہ آئی اور یہ سیاسی سلسلہ ریاست جموں و کشمیر و یونین آف انڈیا کے مابین آئینی رشتے کے پس منظر میں اختتام پذیر ہوا۔
ریاست جموں و کشمیر کی اپنی آئینی شناخت ہے جو اُس آئین ساز اسمبلی کی مرتب کردہ ہے جو1951ء میں وجود میں آئی۔اِس آئین ساز اسمبلی نے ممبراں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جسے ڈرافٹ کمیٹی کا نام دیا گیا جس کے ذمے یہ کام رہا کہ وہ آئین ہند کی مختلف دفعات کا مطالعہ کرے اور اُن دفعات کوریاست میں اجرا یا عدم اجرا کرنے کی سفارش کرے ۔ اِس کمیٹی میں گردھاری لال ڈوگرہ،سید میر قاسم،ڈی پی در،غلام رسول رینزو و ہربنس سنگھ آزاد شامل تھے۔ کمیٹی نے آئین ہند کی بعض دفعات کو بالکل مسترد کر دیا جبکہ بعض دفعات کے بارے میں اپنے اعتراضات پیش کئے چناچہ بعض شقوں کو حذف کیا گیا اور یہ دفعات ترمیمی صورت میں نہیں بلکہ ایک نیا عنواں لے کے ریاست میں لاگو کی گئی چونکہ یہ دفعات قانونی شکل اختیار کر چکیں تھیں لہذا قابل ترمیم نہیں رہی تھیں چناچہ دفعہ35کا نیا عنواں 35A رہا جو صرف ریاست جموں و کشمیر میں قابل اجرا ہے اور خالص ایک جداگانہ دفعہ ہے۔ جہاں دفعہ35میں کسی بھی بھارتی شہری کو بھارت کی کسی بھی دوسری ریاست میں سکونت اختیار کرنے اور ذریعہ معاش حاصل کرنے کا حق ہے وہی 35A میں ریاست جموں و کشمیر میں صرف ریاست کے مستقل باشندے سکونت اختیار کر سکتے ہیں اور ذریعہ معاش حاصل کرنے کا حق اُنہی کے نام محفوظ ہے۔ مستقل سکونت اور ذریعہ معاش حاصل کرنے کا حق ریاست جموں و کشمیر کے حق میں محفوظ ہونے کے علاوہ سکولرشپ اور ریاست حکومت کی جانب سے مختلف نوعیت کی امداد کا حق بھی ریاست کے مستقل باشندوں کے نام محفوظ ہو گا ۔ظاہر ہے دفعہ 35A ریاست اور یونین آف انڈیا کے مابین طے شدہ ایک ایسی دفعہ ہے جو آئینی مراحل سے گذر کے ایک مستقل شکل اختیار کر چکی ہے ۔آئینی مراحل بشرح زیر رہے۔
ریاست کی آئین ساز ا سمبلی کی ڈرافٹ کمیٹی نے 11فروری 1954ء کو اپنی سفارشات پیش کی اور15 فروری 1954 ء کو جموں و کشمیر آئین ساز اسمبلی نے اِن سفارشات کا مان لیا اور ریاستی سرکار سے یہ کہا گیا کہ یہ سفارشات صدرجمہوریہ ہند کو پیش کی جائیں ۔جموں کشمیر سرکار نے ریاستی آئین ساز اسمبلی کی سفارشات کو صدرجمہوریہ ہند کے سامنے پیش کیا جنہوں نے من و عن اُن کو قبول کرتے ہوئے 14 مئی 1954ء کے روز اپنے دستخط ثبت کئے اور ایسے میں صدارتی جنرل آرڈر کے طور پہ یہ شایع ہوا اور اُسی روز سے یہ قابل اجراقرار پایا۔صدر جمہوریہ ہند کا یہ صدارتی آرڑر آئین ہند کی دفعہ370شق ( 1)کے تحت لاگو کیا گیا۔ دفعہ370شق ( 1)کے تحت صدر جمہوریہ ہند ریاستی سرکار کی آئینی سفارشات و ترمیمات کو ایک آرڑر کے وسیلے سے قابل اجرا قرار دے سکتے ہیں اور اِ ن آئینی مراحل میں پارلیمان ہند کا کوئی رول نہیں۔
دفعہ 35Aکا وجود سنگھ پریوار سے وابستہ جماعتوں کو کھٹکتا ہے چونکہ جیسا کی ظاہر ہے اِس دفعہ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی بھارتی شہری نہ ہی ریاست جموں و کشمیر میں مستقل سکونت کا دعویدار ہو سکتا ہے نہ ہی حصول معاش کا لہذا جب سے 2014ء میں سنگھ پریوار کی سیاسی اکائی بھاجپا دہلی میں اقتدار میں آئی تو سنگھ پریوار سے وابستہ جماعتوں نے یہ اندازہ لگاتے ہوئے کہ قانون سازی کے عمل سے دفعہ 35A کو کالعدم قرار دلوانے کی کوشش نا کام ہو سکتی ہے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا۔ سنگھ پریوار کی سوچ سے وابستہ سول سوسائیٹی کے ارکاں جن میں ایک نام جمو ں کشمیر سٹڈی سنٹر دہلی ہے کا یہ دعوہ ہے کہ پارلیمان ہند کی اطلاع کے بغیر ہی اِن سفارشات کو من و عن مان کے صدر جمہوریہ ہند آئینی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں لہذا جموں و کشمیر سٹڈی سنٹر کی صوابدیدکو مد نظر رکھتے ہوئے دفعہ 35A کو کالعدم قرار دیا جائے جبکہ اِسکی آئینی نوعیت یہ ہے دفاع،خارجی امور و رسل و رسائل کو چھوڑ کے پارلیمان ہند ریاست کے بارے میں قانون سازی کی مجاز نہیں۔ریاست جموں و کشمیر نے ایک عارضی الحاق کے تحت صرف تین امور پہ وقتی طور پہ پارلیمان ہند کا حق مانتے ہوئے باقی امور ریاست کے حق میں محفوظ رکھے ہیں اور باقی امور کے ریاست میں اجرا کے بارے میں صدر جموریہ ہند آئین ہند کی دفعہ370شق ( 1) کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی رائے کے تابع ہیں اور ریاست سرکار یہ سفارش قانون سازیہ میں دو تہائی اکثریت سے پاس ہونے والے قانونی امر کے بعد ہی کر سکتی ہے چناچہ کہا جا سکتا ہے پارلیمان ہند کی موافقت کا دعوہ جو جمو ں کشمیر سٹڈی سنٹر دہلی پیش کر رہا ہے بے پرکی کے سوا کچھ بھی نہیں اور آئینی ترازو میں پرکھا جائے توآئین ہند کی دفعہ370شق ( 1) کے برابر پلڑے میں یہ دلیل بے وزن ہے۔ در اصل بھارت کے انتہا پسند حلقوں کو جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی حثیت ہضم نہیں ہو پاتی اوردفعہ 35Aکو کالعدم قرار دلوانے کی کوششیں مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کروانے کی سازشوں کا ایک حصہ ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی سازشیں 1947ء سے ہی ایک منظم طریقہ کار کے تحت ساری و جاری ہیں اور اِن کوششوں میں حالیہ دنوں میں ایک عدالتی درخواست کے ذریعے دفعہ 35 A کو کالعدم قرار دلوانے کی عدالتی اپیل شامل ہو نے کا امکان ہے۔
ایک تاریخی تجزیے میں یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کو بر صغیر کے ملحقہ علاقوں کے تہاجم سے بچانے کیلئے بہت پہلے سے قانونی اقدامات کئے گئے۔ یہ قوانین ڈوگرہ شاہی کے دور میں 1927ء و 1932ء میں مرتب کئے گئے اور پس از 1947ء اُ ن ریاستی باشندوں کو بھی ریاست میں واپس آنے کا حق محفوظ رکھا گیا جو 1947ء کے پُر آشوب دور میں پاکستان مہاجرت کر گئے بشرطیکہ وہ 1927ء و 1932ء میں مرتب قوانین کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے مستقل باشندے رہے ہوں۔بیسوی صدی کی دوسری و تیسری دَہائیوں میں یہ قوانین اسلئے مرتب ہوئے تاکہ پنجابی مسلمین کی ریاست میں آمد و یہاں مستقل سکونت اختیار کرنے پہ روک لگائی جا سکے۔پنجابی مسلمین کی یہاں سکونت جہاں ڈوگرہ شاہی کو کھٹکنے لگی وہی آج ڈوگرہ شاہی کے ڈھنڈورچی سنگھ پریوار کی اکائیاں مغربی پاکستان کے مہاجرین کی ریاست میں مستقل سکونت کیلئے تگ دو کر رہی ہیں جن کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب بتائی جا رہی ہے۔یہ مہاجرین1947ء سے ریاست جموں و کشمیر میں مہاجرانہ حثیت میں گذر بسر کر رہے ہیں۔ اُنہیں جہاں پارلیمانی انتخابات میں حق رائے دہی ہے وہی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں یہ وؤٹ سے محروم ہیں اور یہ پروپگنڈا فرقہ پرست جماعتیں شد و مد سے کر رہی ہیں کہ یہ اِنکے شہری حقوق سلب کرنے کے متراوف ہے حالانکہ جموں و کشمیر کے بجائے اِنہیںبھارتی پنجاب میں بسایا جانا چاہیے تھا چونکہ جموں و کشمیر میں 1947ء سے کئی دَئیاں پہلے ہی ریاست سے باہر کے باشندوں کی رہائش پہ روک لگا دی گئی تھی۔
2014ء سے دہلی کے سنگھاسن پہ سنگھ پریوار کی سیاسی اکائی بھاجپا کے براجمان ہونے کے بعد اِن کوششوں میں تیزی آنے لگی ہے جن کا مقصد ریاست جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی تشخص کو زک پہنچانا ہے ۔2014ء سے پہلے ہی بھاجپا کے رہبر جن میں اُرون جیٹلی پیش پیش تھے دفعہ 35A کو بھارتی شہریوں کے قانونی حقوق کے متراوف مان رہے تھے ۔ 2014ء کے بعد بھاجپا کو پی ڈی پی کے ساتھ ایک کولیشن سرکار بنانے کا موقعہ فراہم ہوا۔ اِس کولیشن کو چلانے کیلئے ایک ’ایجنڈا آف الائنس‘ کا تعین ہوا۔ اِس ایجنڈا میں یہ بھی مقرر ہوا کہ ریاست کی آئینی پوزیشن کو جوں کا توں رکھا جائے لہذا بھاجپا کیلئے آئینی اقدامات کی راہ مسدود ہوئی ویسے بھی کسی آئینی اقدام سے ریاست کی خصوصی پوزیشن میں رخنہ ڈلوانے کی کوششوں میں کئی ایک قانونی دقتیں عیاں تھیں ۔ بنابریں پی ڈی پی کے ساتھ کولیشن سرکار کو بنائے رکھنے کے ساتھ ساتھ عدالتی راہ اختیار کی گئی اور سنگھ پریوار کے گماشتوں کو آگے بڑھایا گیا اور جب جب بھی بھارت کی عدالت عالیہ سپریم کورٹ میں بھارت سرکار ریاستی سرکار کے ساتھ نبھانے پہ قانونی تقاضوں کے سبب مجبور ہوئی تو وہاں ’ایجنڈا آف الائنس‘ کی یقین دہانی کے باوجود کہ ریاست کی آئینی پوزیشن کو جوں کا توں رکھا جائیگا کھل کے سامنے آنے کے بجائے پیٹھ دکھائی گئی۔کبھی یہ کہا گیا کہ مسلے کی حساسیت کے سبب کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اور کبھی یہ کہ ایک وسیع بحث کی ضرورت ہے حالانکہ35A کی تاریخی حقیقتوں کومد نظر رکھا جائے تو دہلی سرکار کو اُن آئینی اقدامات کا دفاع کرنا چاہیے جس میں وہ ماضی میں شامل رہی ہے۔ اِس نظریے کا نہ تو کوئی آئینی جواز ہے نہ اخلاقی کہ یہ اقدامات کانگریس سرکار نے پنڈت نہرو کی رہبری میں کئے تھے لہذا بھاجپا بری الذمہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پنڈت نہرو یا اُ س زمانے کے دیگر بھارتی رہبراں چاہے اُنکی اپنی ذاتی حثیت میں نہیں بلکہ قومی نمائندوں کی حثیت میں آئینی فیصلوں میں شریک تھے۔ایک مہذب ملک کیلئے ماضی کے قانونی اقدامات کا پاس اخلاقی فرض ہے۔
عدالت عالیہ سپریم کورٹ کی پچھلی سماعت میں بھارتی اٹارنی جنرل نے ریاست میں رابطہ کار دینشور شرما کی موجودگی کا عندیہ دیا اور اِسی سبب سے سنوائی معطل کرنے کی درخواست کی۔ظاہر ہے وہ 35A کے بارے میں کوئی مثبت سٹینڈ لینے سے گریز کر رہے تھے حالانکہ رابطہ کار دینشور شرما کی ریاست میں موجودگی اور دفعہ35A کا بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔رابطہ کار دینشور شرما کا رول نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ نہ ہی وہ مقاومتی تنظیموں سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں نہ ہی اُن کے ہونے سے سیاسی صورت حال پہ کوئی مثبت تاثر پڑا ہے۔ پچھلی سماعت میں ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل نے بھی دفعہ35Aکے دفاع میں ایک مختصر پیپر پیش کیا جب اُنہوں نے اُس کا ذکر کیا تو عدالت عالیہ کا یہ کہنا رہا اُنہوں نے ایک مفصل پیپر پیش کیوں نہیں کیا حالانکہ یہ عدالت عالیہ کا حکم نہیں تھا کہ ایک مفصل پیپر پیش کیا جائے۔پچھلی سماعت کے بعد اطلاعات کے مطابق ایک مفصل پیپر کی تیاری میں ریاستی وکلا لگے ہوئے ہیں لیکن اب ایڈوکیٹ جنرل اقبال جہانگیر کے مستعفی ہونے کے بعد یہ پیپر بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے ۔اِس پیپر یا درخواست میں دفعہ35A کی تفصیلات و ریاستی نظریات پیش کئے جانے کے امکانات تھے۔
اگلی سماعت میں گورنر راج ہونے کے سبب ریاست کی بھر پور نمائندگی ہو بعید نظر آتا ہے چونکہ گورنر بہر صورت دہلی سرکار کا مقرر کردہ ہے لہذا وہ ریاستی نمائندگی کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں بنابریں دفعہ35A کے موثر دفاع کے امکانات ضعیف بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دفعہ35A کے ضمن میں دفاعی امکانات ضعیف ہونے کے سبب انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں نا ممکن نظر آتا ہے لہذا انصاف کے تقاضات پورے ہونے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ عدالتی سماعت تب تک معطل کی جائے جب تک لوگوں کے حقیقی نمائندے اِس مقدمے کی پیروی کیلئے سامنے نہ آئیں ثانیاََ عدالت عالیہ سپریم کورٹ کے سامنے جو مقدمہ پیش ہوا ہے اُس کی اساس سیاسی ہے اور ایسے معاملات پوری دنیا میں عوام الناس کی اکثریت مطلق کی مخلصانہ رائے سے جمہوری طریقوں سے حل ہوتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایسی طاقتیں سامنے آتی ہیں جن کو روکنا محال ہوتا ہے۔اللہ نگہباں!
Feedback on<[email protected]>