رمضان جنگ بندی کے خاتمے کے فوراً بعد 19جون کو اچانک نئی دہلی میں بی جے پی کے قومی سیکرٹری اور جموں کشمیر معاملات کے انچارج رام مادھو نے پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرکے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور ان کی ٹیم پر بجلی گرادی اور ان کے پاس گورنر کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہا ۔ اس طرح تین سال تک جاری رہنے والی مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔نیشنل کانفرنس اور کانگریس میں سے کوئی پی ڈی پی یا بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانے کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی پی ڈی پی یا بی جے پی کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں دلچسپی رکھتی ہے۔ چنانچہ ریاست میں گزشتہ چار دہائیوں کے عرصے میں آٹھویں گورنر راج کا قیام عمل میں آچکا ہے ۔
نئی دہلی سے کشمیر تک تمام تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار اس بحث میں الجھ چکے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ۔کس کا کیا مفاد ہے اور اور اس کے بعد کیا ہونے جارہا ہے لیکن یہ واقعہ نئی دہلی کے ’’ جمہوری ‘‘ تخت پر براجماں حکمرانوں چاہے وہ کانگریس کے ہوں یا بی جے پی یا کسی اور جماعت یا اتحاد کے کی ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ سیاسی فریب کاریوں کی ستر سال پر محیط سیاسی فریب کاریوں کی تاریخ کاتسلسل ہے جس نے کشمیر کے ذہن اوردل کو بدل کر رکھدیا ہے ۔ اس ذہن اور اس دل کو اعتبار اوراعتماد دلانے کے نام پر وہی تیر آزمائے جارہے ہیں جن پر اس کے زخموںکا خون ستر سال سے رس رہا ہے ۔
گزشتہ چالیس سال میں یہ آٹھواں گورنر راج ہوگا اور ہر گورنر راج کے نفاذ کی وجہ تقریباً ایک جیسی ہی ہے ۔پہلا گورنر راج مارچ 1977ء میں اس وقت نافذ کیا گیا جب شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں قائم حکومت سے کانگریس نے اعتماد واپس لیا ۔صرف دو سال پہلے شیخ محمد عبداللہ کو تاریخی اندرا عبداللہ ایکارڈ کے نتیجے میں کانگریس کی اکثریت والی اسمبلی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سونپ دیا گیا تھا ۔اس ایکارڈ کے نتیجے میں شیخ محمد عبداللہ کشمیر کے عالمی لیڈر کی حیثیت سے گرکر وزیر اعلیٰ کے عہدے تک محدود ہوکر رہ گئے ۔اپنی گیارہ سالہ قید اوراپنی قوم کی بیس سالہ قربانیوں کو بغیر کسی حصولیابی کے لپیٹ کر وہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے اور اس کا صلہ انہیں دوسال کے بعد اس وقت ملا جب کانگریس نے اعتماد واپس لیکر انہیں اس کرسی سے نیچے گرا دیا ۔ابھی امرجنسی کو ختم ہوئے پانچ دن ہی ہوئے تھے کہ شریمتی اندرا گاندھی نے شیخ محمد عبداللہ کو آئینہ دکھایا جس نے ایمرجنسی کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا ۔
اس سے پہلے 9اگست 1953کو شریمتی گاندھی کے والد اور ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت والی کانگریس حکومت نے ڈرامائی انداز میں انہیں گلمرگ سے گرفتار کروا کر جیل بھیج دیا تھا ۔اس وقت وہ نیشنل کانفرنس کی اکثریت والی حکومت کے وزیر اعظم تھے ۔ نیشنل کانفرنس کا ایک دھڑا الگ کردیا گیا تھاجس نے بخشی غلام محمد کو قاید تسلیم کیا ۔اس منصوبے کے سارے تانے بانے نئی دہلی میں ہی تیار ہوئے تھے ۔ایک ماہ تک کشمیر میں ہڑتال رہی لیکن نئی دہلی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے خزانے کے دروازے کھول کر کشمیر میںسیاست کے پیادوں کی خرید و فروخت شروع کردی ۔ یہاں سے ہی کرپشن کشمیر کی سیاست کا جزو لاینفک بنا۔بہر حال گورنر ایل کے جھاہ کا یہ گورنر راج ایک سو پانچ دن قائم رہا ۔
جون 1977ء میں انتخابات ہوئے۔ یہ ریاست کے پہلا شفاف انتخاب تھا جس میں مرکز میں برسر اقتدار جنتاپارٹی نے نیشنل کانفرنس کو شکست دینے کیلئے تمام تر سیاسی قوت جھونک دی اورکشمیر میں تمام سیاسی اوردینی جماعتیں نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں متحدہوگئیں جن میں میر واعظ مولوی محمد فاروق کی عوامی ایکشن کمیٹی ، غلام محی الدین قرہ کی پولٹیکل نیشنل کانفرنس ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں شامل تھیں ۔اس اتحاد کو مرکز کی اس وقت کی حکومت کی بھرپور تائید اور حمایت حاصل تھی ۔ شیخ محمد عبداللہ کے ایک وقت کے داہنے ہاتھ سمجھے جانے والے کشمیر کے قومی ترانے کے خالق مولانا محمد سعید مسعودی اس اتحاد کی قیادت کررہے تھے لیکن نیشنل کانفرنس نے حتمی اکثریت حاصل کرکے حکومت تشکیل دی ۔ شیخ محمد عبداللہ نے انتخابی مہم میں بذات خود حصہ نہیں لیا کیونکہ وہ بہت بیمار تھے ۔ غیر معمولی جیت کی خبر نے ان کی بیماری کو رفع کیا اور وہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے لئے تیار ہوئے ۔
1982ء میں شیخ محمدعبداللہ کی موت کے بعدان کے فرزند فاروق عبداللہ کو نیشنل کانفرنس نے اقتدار کی وراثت سونپ دی ۔بی کے نہرو اس وقت ریاست کے گورنر تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب nice guys finish second میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی کشمیر میں فاروق عبداللہ کی حکومت گرانے کا منصوبہ بناچکی تھی اورجب انہیں اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا جس کے نتیجے میں انہیں ریاست کے گورنر کے عہدے سے ہٹادیا گیا ۔ان کی جگہ جسٹس وی خالد کو گورنر بنا کر بھیجا گیا لیکن وہ صرف بارہ روز گورنر رہے ۔ان کی جگہ شریمتی گاندھی نے اپنے منظور نظر جگموہن کو گورنرکے عہدے پر فائر کردیا اور انہوں نے بڑی صفائی کے ساتھ شریمتی گاندھی کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ نیشنل کانفرنس کے دوٹکڑے کردئیے گئے ۔ممبران اسمبلی کی وفاداریاں بھاری قیمتوں کے عوض خرید لی گئیں اور فاروق عبداللہ کے ہی بہنوئی خواجہ غلام محمد شاہ کو اقتدار سونپ دیا گیا ۔یہ عوامی نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مخلوط حکومت تھی ۔لیکن 1986ء میں کانگریس نے شاہ کی حمایت واپس لیکر اس حکومت کو بھی گرادیا ۔جس کے نتیجے میں دوسرا گورنر راج قائم ہوا ۔ چار سالہ سیاسی اتھل پتھل کے بعد گورنر جگ موہن نے کئی ترقیاتی کام کرکے عوام میں اپنی ایک شناخت قائم کرنے کی کوشش کی ۔ ہر بحران مرکز کی برسر اقتدار جماعت محض ریاستی حکومت میں کانگریس کی شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے پیدا کررہی تھی جبکہ کشمیر میں خاص طورپر اس کی کوئی عوامی ساکھ نہیں تھی سوائے اس کے کہ اس نے مراعات دیکر کئی لوگوں کو اپنی چھتر چھایا میں رکھا تھا ۔
عوام کے لاشعور میں یہ ساری سیاسی منصوبہ سازیاں ہند مخالف جذبات پیدا کرنے کا باعث بن رہی تھی ۔اور جب فاروق عبداللہ کو محسوس ہوا کہ اقتدار کیلئے عوام کی حمایت سے زیادہ نئی دہلی کے آشیرواد کی ضرورت ہے تو اس نے کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملانے کی تاریخی غلطی کی ۔راجیو فاروق ایکارڈ کے نام سے ایک اور سمجھوتہ ہوا ۔ راجیو گاندھی اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم تھے ۔اس سمجھوتے کے تحت 1987ء میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے مشترکہ طور پر انتخاب لڑا ۔نیشنل کانفرنس کے کانگریس کے ساتھ ایکارڈ نے مقامی سیاسی امنگوں کیلئے ایک خلا ء پیدا کردیا جسے سیاسی اورمذہبی جماعتوں کے اتحاد ’’ مسلم متحدہ محاذ ‘‘ نے پر کرنے کیلئے انتخاب میں حصہ لیا ۔اس انتخاب میں سید علی شاہ گیلانی بھی امیدوار تھے ۔ محمد یوسف شاہ جو آج سید صلاح الدین کے نام سے حزب المجاہدین کے سپریم لیڈر اور جہاد کونسل کے قاید بھی ہیں، امیراکدل حلقہ انتخاب کے امیدوار تھے ۔محمد یاسین ملک ، جاوید احمد میر اوربیشتر نوجوان جنہوں نے بعد میں بندوق اٹھائی انتخابی مہم کے کلیدی کردار تھے ۔اس انتخاب نے کشمیر میں ہندوستان کی جمہوریت کوہی ننگا نہیں کیا بلکہ عسکری جدوجہد کی راہ بھی کھول دی ۔کاونٹنگ ہالوں میں کامیاب امیدواروں کا اعلان ناکام امید وار کے طور پر کیا گیا ۔ریکارڈ توڑ دھاندلی نے نیشنل کانفرنس کو بھی رسوا کیا اور ہندوستان کو بھی ۔کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی حکومت کا اعلان ہوا جس کی قیادت فاروق عبداللہ کررہے تھے ۔
صرف چند سال کے اندر کشمیرمیں بندوق وارد ہوچکی تھی ۔حاجی گروپ بن چکا تھا ۔ ابتداء میں کچھ دھماکے ہوئے جنہیں نظر انداز کردیا گیا ۔لیکن جب صراف کدل میں بی ایس ایف کی ایک گاڑی پر کلاشنگوف سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی تو ہندوستان بھی ہل گیا اور کشمیر کی حکومت بھی ۔بندوق نے عوام کے دبے ہوئے جذبوں کو قوت عطا کی اور بپھرے ہوئے جذبات بھڑک اٹھے ۔عوام جوق در جوق سڑکوں پر آئے ۔ہندوستان کو کشمیر ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوا ۔ فاروق عبداللہ مستعفی ہوگئے ۔اس ہنگامہ خیز حالت میں جگموہن کو ایک بار پھر گورنر بناکر کشمیر روانہ کیا گیا ۔مفتی محمد سعید اس وقت ہندوستان کے وزیر داخلہ تھے ۔جن کی بیٹی روبیہ سعید کو اغواء کیا گیا تھا اور پھر ایک ڈیل کے تحت گرفتار عسکریت پسندوں کے بدلے چھوڑ دیا گیا ۔یہ تیسرا گورنر راج تھا اور جگموہن کے راج بھون پہنچنے کے فقط دو روز بعد گاو کدل میں پچاس کے قریب شہریوں کا قتل عام ہوا جوو پرامن مظاہرے کررہے تھے ۔اسی دور میں کشمیری پنڈت راتوں رات کشمیر سے ہجرت کرگئے۔کئی قتل عام تاریخ کا حصہ بنے جن میں حول قتل عام بھی شامل ہے جو میر واعظ مولوی محمد فاروق کے جنازے میں شامل سوگواروں پر فورسز بنکر سے گولیوں کی بوچھاڑ کے نتیجے میں رونما ہوا ۔
1996 ء میں پھر فاروق عبداللہ کو انتخاب لڑنے پر تیار کیا گیا ۔لوگوںکی قلیل تعداد ووٹ ڈالنے کیلئے پولنگ بوتھوں پر پہنچی اور نیشنل کانفرنس انتخاب جیت گئی ۔ فاروق عبداللہ کی قیادت میں حکومت تشکیل دی گئی ۔ یہ پہلی اور آخری حکومت تھی جو پورے چھ سال قائم رہی۔
2002کے انتخاب میں کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی ۔معلق اسمبلی وجود میں آئی اور فاروق عبداللہ نے کیر ٹیکروزیر اعلیٰ کی آفر قبول نہیں کی چنانچہ گورنر راج قائم ہوا ۔ سکسینہ اس وقت گورنر تھے ۔ یہ گورنر راج سب سے کم وقت یعنی صرف پندرہ دن قائم رہا ۔ اس عرصے میں پی ڈی پی ، کانگریس اور آزاد امیدواروں کے اتحاد سے مخلوط حکومت قائم ہوئی جس کی قیادت مفتی محمد سعید کررہے تھے ۔کانگریس اورپی ڈی پی کے درمیان سمجھوتے کے مطابق تین تین سال دونو ں جماعتوں کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سونپنا تھا ۔ تین سال بعد کانگریس کے غلام نبی آزاد وزیر اعلیٰ بنے لیکن 2008ء میں پی ڈی پی نے حمایت واپس لی اور گورنر این این ووہرا کا گورنر راج قائم ہوا ۔اس وقت امرناتھ زمین کے معاملے پر ہمہ گیر ایجی ٹیشن جاری تھی اوریہ پانچواں گورنر راج تھا جو 5جنوری 2009ء تک جاری رہا ۔
2014ء کے انتخاب میں بھی کسی جماعت کو حتمی اکثریت حاصل نہیں ہوئی ۔بی جے پی اس انتخاب میں پچیس نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ پی ڈی پی اٹھائیس نشستیں حاصل کرگئی ۔اس وقت ہندوستان میں کانگریس کا طویل دور ختم ہوچکا تھا اور بی جے پی کی طاقتور حکومت نریندر مودی کی قیادت میں قائم ہوچکی تھی ۔جب تک بی جے پی اور پی ڈی پی کے درمیان اتحاد کا سمجھوتہ طے پایا،چھٹا گورنر راج اکاون روز تک قائم رہا ۔ این این ووہرا ہی اس بار بھی گورنر تھے ۔
2015ء میں مفتی محمد سعید کی رحلت کے بعد پی ڈی پی کی قیادت محبوبہ مفتی کے ہاتھ آئی اور وہ پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنے میں تذبذب کا شکار رہی ۔ چنانچہ 87دنوں تک گورنر راج قائم رہا ۔اس دوران محبوبہ مفتی اتحاد برقرار رکھنے پر راضی ہوچکی تھی لیکن 19جون کو تاریخ پھر دہرائی گئی ۔ محبوبہ مفتی کو بھنک بھی لگنے نہیں دی گئی کہ نئی دہلی میں اتحاد سے بی جے پی کے الگ ہونے کا اعلان کردیا گیا اور آٹھواں گورنرراج قائم ہوا ۔آزادی کے بعد ہندوستان کی کسی ریاست میں چالیس سال کے عرصے میں آٹھ بار گورنر راج قائم نہیں ہوا ۔ اس کے سوائے اس بات کا کون سا ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں وہ غلیظ سیاسی کھیل کھیلاجاتا رہا جس کے مقاصد بہت حقیر تھے لیکن جس نے ہندوستان کی جمہوریت کو اتنا داغدار کردیا کہ اب کسی پہل سے بھی یہ داغ دھل نہیں سکتے ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)