اشفاق سعید
سرینگر //لگاتار ہو رہی بارشوں کے نتیجے میں زمینداری کے سیزن میں ایک ماہ کی تاخیر ہوئی ہے کیونکہ مئی کے آخر سے لوگ وادی کے اطراف واکناف میں مکئی کی بوائی کے ساتھ ساتھ پنیری لگانے کا کام کرتے ہیں لیکن اس سال نہ صرف ژالہ باری اور بارشوں سے دھان کی پنیری کی فصل متاثر ہوئی ہے، بلکہ پنیری کا کام بھی کسی جگہ شروع نہیں ہو سکا ہے ۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ مئی کے مہینے سے لوگ اپنے کھتوں سے پنیری لگانا شروع کر دیتے تھے اور یہ سلسلہ 5جون تک مکمل کیا جاتا تھا۔انہوں نے کہا کہ امسال اب تک نہ کھیت تیار کرنے کا موقعہ ملا اور نہ بارشوں نے کوئی بھی فصل لگانے کا موقعہ فراہم کیا۔
یہی نہیں بلکہ اپریل مئی میں ہی خانہ بدوش بکروال اپنے مال مویشی لیکر سونہ مرگ، یوس مرگ یا دیگر علاقوں میں جاتے تھے لیکن ان کی موسمی ہجرت بھی لگاتار بارشوں کی وجہ سے روک گئی ہے کیونکہ مئی کے پورے مہینے میں لگاتار بارشیں ہوئیں۔رواں موسمی صورتحال کے دوران لگاتار ژالہ باری اور آسمانی بجلی گرنے کے واقعات کو گلوبل وارمنگ کے ساتھ جوڑتے ہوئے اسلامک یونیورسٹی اونتی پورہ کے وائس چانسلر پروفیسر شکیل رومشو، جو ماہر ارضیات بھی ہیں ،کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اس سال سب سے زیادہ ژالہ باری اور گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہوئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ بارشیں مغربی ہوائوں کے داخل ہونے سے ہوتی ہیں لیکن اس سال جس طرح سے لگاتار مئی کے مہینے میں ہر دن شام کو ژالہ باری سے فصلوں کو نقصان پہنچا ہے یا پھر آسمانی بجلی کے گرنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں ،یہ سب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ بگڑتے ماحولیات کا اثر اب موسمیات پر بھی پڑ رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پہلے بھی بارشیں ہوتی تھیں لیکن اتنی زیادہ ژالہ باری نہیں ہوتی تھی ۔رومشو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ پوری دنیا میں ہے لیکن سرکاریں اس کی روکتھام کیلئے عام لوگوں سے زیادہ اقدامات اٹھا سکتی ہیں اور ضرورت بھی اس بات کی محسوس کی جا رہی ہے کہ یہاں جنگلات کے کٹائو کو روکا جائے ، پودے لگائے جائیں ، پولوشن کم کیا جائے ، ٹھوس فضلہ ٹھکانے لگایا جائے اورآبی پناگاہوں کو بچایا جائے تو اس سب سے یہ مسئلہ کسی حد تک کم ہو سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں 30سے40 برسوں کے دوران ماحولیات کو کافی زیادہ نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔