سہیل سالم
“پھر وہ دریا میں تحلیل ہوگیا ۔پھر دریا نے کنارے کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس نے مجھے سے کہا۔۔۔۔۔”
” تاریخ میں ہی تمہاری تاریخ کا قتل ہوگیا اور تمہیں اپنی تاریخ کے قاتل کو ڈھونڈنا ہوگا.”
میرے ہاتھوں میں ایک سونے کا قلم سونپ دیا گیا ۔
“اور اس نے کہا؟”
“تمہیں خود اپنی تاریخ لکھنی ہوگی”.
میں قلم کو ہاتھوں میں لے کر دریا کے کنارے پر کھڑا تھا ۔دریا کی گہرائی میں قیامت بر یا ہو گئی تھی ۔دریا کی آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے ۔قبل اس کے کہ دریا کی آنکھوں سے آگ باہر آجائے میں ڈر گیا اور تیز رفتاری سے بھاگنے لگا۔
دریا کے اس پار ایک ویران محل تھا اور اس کی ویرانی میری منتظر تھی، جس کی پرچھائی میں مجھے اپنی تاریخ کے قاتل کو ڈھونڈنا تھا۔
اس محل میں کیا نہیں تھا،برف میں لپٹے ہوئے خواب ،ادھوری کہانیوں کے نیم بسمل کردار ،راکھ سے بنے ہوئے آدم اور خاموشی کا ہجوم ۔ہر طرف دھواں ہی دھواں ۔راکھ سے بنے ہوئے آدم پڑھنے میں اتنے مصروف تھے کہ ایک دوسرے سے بحث و مباحثہ کرنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں تھا۔
میں اس محل کا ایک نیا سایہ تھا ۔جب میں سونے کے قلم سے محل کے در و دیوار پر لکھنے لگا تو آدم مجھے حیرت سے تکتا رہا اور اپنے آپ سے کہنے لگا ۔
“کیا ہماری تاریخ اپنے اصل روپ میں پھر سے لکھی جائی گی؟”
اچانک ایک نئے موسم نے آنکھ کھولی۔تیز آندھیوں نے بیابانوں میں ایک نئے جشن کا آغاز کیا اور آسمان سے سورج غائب ہوگیا۔تیزاب کی بارش شروع ہوگئی اور محل کے ماتھے کا غصہ بھی نمودار ہوگیا۔مسلسل تیزاب کی بارش نے محل کی ہر ایک شے کو اپنی تحویل میں لے لیا۔بارش سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے لئے میں نے چنار کی آغوش میں پناہ لی۔
دو تین گھنٹوں کی بارش کے بعد آسمان پر آدم زاد کا دماغ تارے کے روپ میں چمکنے لگا ۔آدم زاد کے دماغ کی چمک سے آسمان کا وجود بھی چمک رہا تھا۔آسمان کی چمک سےمحل کے آس پاس کی بستی،پہاڑ ،دریا اور قبرستان پر عجیب سی کیفیت طاری ہو رہی تھی ۔
میں بھی آسمان کی اس چمک سے ڈر کیا اور سب کچھ بھول گیا۔میرا بھی دم گھٹنے لگا اور چنار کی آغوش میں دم سنبھالنے چلا گیا ۔
“میں چنار کی آغوش میں بیٹھنے والا ہی تھا کہ آسمان سے اعلان ہوا”
“اپنی تاریخ سے باہر نکلو”.
میں شش و پنج میں پڑ گیا کیونکہ ایسا اعلان میں نے پہلی بار سنا تھا۔یہ اعلان کم اور حکم زیادہ لگا رہا تھا۔
پرچھائیوں کا جلوس سڑکوں پر نکل آیا اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے.
“کیا ہوا؟”
“کیا ہماری تاریخ کا بھی دن دھاڑے میں قتل ہوا؟۔”کیا ہماری تاریخ کو بھی موت کے گھاٹ اتار گیا۔”
“ہر سو عجیب و غریب آوازوں نے شور محشر کو گلے لگایا تھا اور آہستہ آہستہ تاریکی بھی پھیل رہی تھی۔مجھے یاد آیا—-”
“میں اپنی تاریخ کے قاتل کو ڈھونڈنے نکلا ہوں”
۔تاریکی کی پر آشوب فضا نے آس پاس کی تمام چیزوں کو نگل لیا ۔مجھے اپنے قلم کی فکر نے پریشانی میں مبتلا کیا کیونکہ میرا قلم ہی اب میری تلوار بھی تھی۔
پھر تاریکی کے باطن سے سورج نکل آیا ۔ہزاروں پرچھائیاں اپنا ذہنی توازن کھوچکی تھیں۔بے اضطرابی کا یہ عالم تھا کہ آدم زاد ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کر رہے تھے ۔پر آشوب فضا نے ان کی تقدیر کو بدل دیا تھا۔وہ بت بنے ہوئے تھے اور بتوں میں مجھے اپنی تاریخ کے قاتل کو ڈھونڈنا تھا۔
بہت جد و جہد اور بہت دوڑ دھوپ کے باوجود کچھ بھی ہاتھ میں نہیں آرہا تھا۔
“پھر میں واپس دریا کے پاس چلا گیا اور میں نے دریا کے نام لکھا ۔۔۔”
“میرے ہاتھوں میں جو اس نے قلم سونپ دیا تھا محل کی آتما نے اسے چھین لیا ۔اب میں اسی انتظار میں ہوں کہ کب مجھے میرا قلم واپس سونپ دیا جائے گا ۔
“میں اپنی گم شدہ تاریخ کی رپورٹ تیار کر کے ایک نئی تاریخ کو جنم دے سکتا ہوں۔”
“پھر تاریخ خود فیصلہ کرے گی کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون ہوگا۔”
���
رعناواری سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛ 9103930114