شیخ احمد دین کو یقین تھا کہ کشمیری ایک دن اپنے حقوق کے لئے اُٹھیں گے لیکن جب یہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوا تو شیخ صاحب موجود نہ تھے۔ وہ 1987 ء میں خالق حقیقی سے جاملے۔ اگر کچھ ماہ اور زندہ رہتے تو اپنی انکھوں سے وہ سب کچھ دیکھتے جس کا انتظار ان کو 1947ء سے ہی تھا۔ شیخ صاحب 1905 میں بانہال کے شیخ علی بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے پولیس کی نوکری کے لئے درخواست دی جو منظور کئی گئی لیکن اپنے بھائی کی موت کے بعد اُنہوں نے پولیس کی نوکری چھوڑ دی اور اپنے ہی علاقے میں ٹھیکے داری کرنے لگے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چودھری عباس کی قیادت میں مسلم کانفرنس پوری ریاست میں مقبول ہو گئی تھی۔ چناںچہ شیخ صاحب بھی زیادہ دیر تک تحریک سے دور نہ رہ سکے اور مسلم کانفرنس میں شمولیت کر دی۔ وہ کچھ ہی دیر میں کافی مشہور ہوکر حکام کی نظروں میں آگئے۔ 1946ء میں جب شیخ محمد عبدللہ نے کشمیر چھوڑدو کا نعرہ لگایا تو مسلم کانفرنس بھی خاصی متحرک ہوئی۔ شیخ ا حمد دین کی سرگرمیوں نے حکام کی ناک میں دم کر دیا۔ اُس وقت کے گورنر نے شیخ صا حب کو زندہ یا مرد ہ پیش کرنے کا حکم صادر کیا۔ شیخ صاحب روپوش ہوگئے اور بہت دنوں تک اسلام آباد (اننت ناگ) کے ایک گاو ں چھچکوٹ میں رہے۔ پولیس نے بانہال میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ اُن کے گھر والوں کو سخت تنگ کیا گیا۔ اُن کے بچے کو بھی ہراساں کیاگیا لیکن شیخ صاحب کی بیوی نے کمال بہادری اور سمجھ داری سے کام لے کر اُن کو شالی کے بڑے بڑے برتنوں میں چھپایا تھا۔ تین سال تک شیخ صاحب روپوش رہے لیکن تنظیمی امور خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ روپوشی کے ایام میں شیخ صاحب کے گھر والوں کو ان کی کوئی اطلاع نہ تھی ۔ وہ بڑی مشکلوں میں تھے لیکن کبھی کوئی شکایت نہ کی۔ شیخ صاحب کی روپوشی کے دوران ہی چودھری عباس ، اللہ رکھا ساگر اور کئی رہنماؤوں کو جلاء وطن کیا گیا۔ اسی دوران پولیس کے علاوہ نیشنل کانفرنس کے کارکنان بھی شیخ صاحب کی ٹوہ میں تھے لیکن شیخ احمد دین نے انہیں ہمیشہ چکمہ دیا۔ 13اگست1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر پر قرارداد منظور کی۔ زبردست دباؤ کے باوجود بھی مسلم کانفرنس نے رائے شماری بورڈ کا قیام عمل میں لایا۔ شیخ صاحب اس بورڈ کے خزانچی بنے۔ اس بورڈ نے شیخ صاحب اور دیگر مسلم کانفرنس مے ممبران کی تحرک سے وابستہ رکھنے میں کلیدی رول نبھایا لیکن رفتہ رفتہ مسلم کانفرنس نے دم توڈ دیا۔ شیخ صاحب نے مگھر مل باغ سرینگر میں ایک مکان خریدا اور وہی رہنے لگے۔ اگرچہ وہ سیاست سے نا طہ توڑ چکے تھے لیکن اپنی وفات تک وہ حریت پسندوں کیلئے مشعل راہ بنے رہے۔ شیخ صاحب بڑے بہادر اور بیباک تھے۔ 1971ء میں جب درگاہ حضرت بل کی تعمیر نو کے لئے گھر گھر چندہ جمع کرتے تھے تو ایک دن مگھرمل باغ کا بھی رُ خ کیا۔ شیخ محمد عبدللہ کے دیرینہ ساتھیوں نے شیخ احمد دین کے گھر نہ جانے کا مشورہ دیا لیکن وہ بھی ضد کے پکے تھے۔ جب شیخ محمد عبدللہ گھر کے اندر داخل ہوئے تو شیخ احمد دین غسل فرمانے چلے گئے۔ اُس کے بعد انہوں نے ناشتہ کیا۔ اس دوران شیخ صاحب انتظارر کرتے رہے ۔ کافی دیر بعد وہ آئے اور شیخ صا حب سے آنے کی وجہ پوچھی۔ شیخ صاحب نے جب مُدعا بیان کیا تو اُنہوں نے جواباً کہا کہ کیا ڈرامہ شروع کیا ہے؟ اتنا انتظار کرنے کے بعد بھی وہ خالی ہاتھ لوٹے ۔ شیخ احمد دین اللہ کو پیارے ہوگئے تومگھرمل باغ میں ہی سپرد خاک ہوئے۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648