آسیہ جیلانی سرینگر کے ایک پڑھے لکھے اور صاحب ِثروت خاندان میں 9 ؍ فروری1974ء کو پیدا ہوئی اور ابتدائی تعلیم پریز نٹیشن کانونٹ میں پائی۔انہوں نے گورمنٹ زنانہ کالج سرینگر سے گریجویشن پاس کر کے کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت میں داخلہ لیا۔ آسیہ نے اے ایف پی (AFP ) میں ٹرینی رپوٹر کے بطور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے یہ کام 1998 ء سے 2001 تک بحسن و خوبی انجام دیا۔ اپنی کارکردگی کی بناہ پر اُنہیں’’ٹایمز آف انڈیا ‘‘میں فیلوشپ ملی لیکن انہوں نے ’’کولیشن آف سول سوسائٹی‘‘ کے جھنڈے تلے نیم بیواوؤں اور ستم زدگان کی دادرسی کو ترجیح دیتے ہوئے 2002ء میں’’ ٹایمز آف انڈیا‘‘ کی فیلو شپ چھوڑ کر حقوق انسانی پر کام کرنے کے لئے خود کووقف کردیا۔ ’’کولیشن آف سول سوسائٹی‘‘ کی ایک اکائی’’ پبلک کمیشن آف ہیومن را ئٹس‘‘ بشری حقوق کی پامالیوں پر مبنی جو ماہانہ رسالہ شایع کرتی ہے، آسیہ اس کے لئے کام کرنے لگی۔ وہ لوگوں خاص کر عورتوں سے مل کران کی روداد سنتیں، انہیںدلاسہ دیتیں اور بض اوقات ا ن کی مالی ا مداد بھی کرتی، جب کہ نیم بیوائیںانہیں اپنا مسیحا سمجھتیں۔ اکتوبر 2003ء میں آسیہ نے ایمسٹرڈم میں عالمی امن کانفرنس میں شرکت کی اور شرکاء کو اپنا گرویدہ بنایا۔ انہوں نے کشمیر کی صورت حال سے نہ صرف مندوبین کو روشناس کرایا بلکہ ان کے سوالوں کے تسلی بخش جواب بھی دئے۔ان دنوں آسیہ سول سوسائٹی کی ایک اور اکائی Kashmiri Women's Initiative fo Peace and Disarmament کی نیوز لیٹر Voices unheard کی مدیرہ تھیں۔ اس نیوز لیٹر پہ ایمسٹرڈم کی کانفرنس میں خاصی بحث ہوئی اور آسیہ کے رول کو سراہا گیا۔ ’’کولیشن آف سول سوسایٹی ‘‘نے ریاست میں پارلیمانی انتخا بات کے ڈھونگ کو بے نقاب کرنے کے لئے اپریل 2004 ء میں ہورہے پارلیمانی انتخابات کی مانیٹرنگ کا فیصلہ کیا۔ مقامی اور بھا ر ت سے آئے رضاکاروں کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ آسیہ کو بخار تھا اس لئے انہیں کسی ٹیم میں شامل نہ کیا گیالیکن 20 ؍ اپریل کو سب سے پہلے وہ لال چوک پہنچیں اور کپوارہ جانے والی گاڈی میں سوار ہوئیں۔ ان کے ساتھ خرم پرویز اور مقا می رضاکاروں کے علاوہ بنگلور سے آئے کمار بھی تھے۔12 بجے کے قریب میں اور گوتم نولکھا بانڈی پورہ میں ولر کنارے بیٹھے تھے۔ گوتم ولر کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ میں نے مذاقاً کہا آزادی کے بعد اسے صاف کیا جائے گا،اسی وقت میرا فون بجا اور ایک رضاکار نے مجھے اس حادثے کی اطلاع دی جس نے آسیہ کو ہم سے ہمیشہ کے لئے چھین لیا۔ ہم فوراً سوپور کی طرف چل پڑے۔ آسیہ کی گاڑی بم دھماکے (آئی ای ڈی) میں تباہ ہوئی تھی۔ ڈرائیور موقعے پر ہی جان بحق ہواجب کہ آسیہ دور جاگری۔ جب آنکھیں کھلیں تو اپنے کپڑے دوست کرنے کی کوشش کی لیکن دیکھا کہ بازو دھماکے کی نذرہوا ہے۔ اس کے بعد ایمبولنس میں کلمہ توحید کا ورد جاری رکھا اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے آسیہ جام شہادت نوش کر چکی تھیں۔ انہیں آبائی مقبرہ نرورہ سری نگر میں سپرد خاک کیا گیا۔ خرم پرویز بال بال بچ گئے لیکن ان کو اپنی ایک ٹانگ سے ہاتھ دھونا پڑا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648