۔13 جولائی1193ء کشمیر کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے۔ اس دن نے نہ صرف تحریک آزادیٔ کشمیر میں نئی جان ڈال دی بلکہ جموں کشمیر کے مسلانوں کو ایک ہی جھنڈے تلے جمع کیا۔ اس دن قتل عام کے بعد خاص کر کشمیر میں جلسے اور جلوسوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جن میں مرد و زن ، بچے اور بوڑھوں نے شرکت کی۔ ایسا ہی ایک جلوس 28جنوری1932 ء کی ایک سرد صبح کو بارہ مولہ کشمیر میں نکالا گیا۔ جلوس میں صرف عورتوں نے شرکت کی۔ شہدا ئے کشمیرکے حق میں اور حکام کے خلاف نعرے لگاتا ہوا یہ جلوس مارچ کرتا ہوا جہلم کے کنارے پہنچا۔ اس جلوس میں بہرو بیگم جن کو لوگ فریژی کے نام سے جانتے تھے ،بھی شامل تھیں۔ وہ بہت بہادر خاتون تھیں اور اس دن تو اس نے وہ فخریہ کارنامہ انجام دیا جو بارہ مولہ کے لوگوں کو بہت دیر تک یاد رہا لیکن افسوس فریژی کی بہادری اور شہادت کو فراموش کیا گیا۔ 13 ؍ جولائی کے شہدا ء کو ہر سال خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، ان کی قبروں پر گل باریاں کی جاتی ہے لیکن شاید آج کے دور میں کسی کو معلوم نہیں کہ فریژی کس جگہ دفن ہے۔ الغرض قصبہ بارہمولہ کے اس جلوس کو پولیس نے روکا۔ ایک سب انسپکٹر نے جلوس میں شامل ان بہادر وعورتوں کو بہت گالیاں دیں۔ فریژی یہ برداشت نہ کر سکیں ،ان کےپاس کانگڑی تھی جس میں دہکتے ہوئے انگارے تھے۔ فریژی نے کانگڑی سب انسپکٹر کے منہ پر دے ماری جس سے اس کے چہرے اور دوسرے اعضاء کی کھال جل گئی اور وہ داغ اس کے منہ پر ہمیشہ رہا۔ سب انسپکٹر درد سے چیخ رہا تھا کہ ایک سپاہی نے فریژی کو گولی کا نشانہ بنایا۔ اس مجاہدہ نے اسی وقت جام شہادت نو ش کیا۔ اس واقعہ کو محمد یوسف صراف نے اپنی کتاب Kashmiris fight for freedom میں رقم کیا ہے۔ فریژی شہادت کے وقت صرف 30 سال کی تھیں یعنی وہ 1901 کے آس پاس پیدا ہویں تھیں۔ وہ محلہ جلا ل صاحب ، بارہ مولہ کی رہنے والی تھیں اور خواجہ رزاق جو بہرو کی بیوہ تھیں۔ فریژی کے جنازے کے پیچھے بارہ مولہ قصبے کے تمام لوگ ننگے پائوں چلے۔ صراف کے مطابق فریژی کو تحریک سے والہانہ وابستگی تھی اور ہمیشہ آزادی کے جلسے جلوسوں میں ذوق وشوق سے شرکت کرتی تھیں۔
…………………..
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648