پچھلے مہینے ماہ مئی کی 21تاریخ کو گلگت بلتستان کی حکومت نے آرڈر 2018 کے اجراء کا اعلان کیا جسے پاکستان کی وفاقی حکومت نے منظوری دی اور اخیر پر صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے اس پر اپنے دستخط ثبت کر کے اسے مملکتی فرمان کی صورت دی۔ اس حکم نامے کی رُو سے ریاست جموں و کشمیر کے شمالی خطے میں بعض آئینی تبدلیاں لائیں گئی ہیں ۔جموں و کشمیر کا شمالی حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ ان آئینی تبدیلیوں کا مدعا و مقصد گلگت بلتستان کو آئین اعتبار سے پاکستان کے دیگر چار صوبوں کی سطح پہ لانا ہے۔ گلگت بلتستان کو آئینی لحاظ سے با اعتبار بنانا اس خطے کی دیرینہ مانگ تھی جسے پورا کرنا پاکستانی حکام کیلئے مسلٔہ کشمیر کے لائنحل رہنے سے مشکل ہو رہا تھا لیکن اب سیاسی و سفارتی تقاضوں نے پاکستان کی وفاقی حکومت کو گلگت بلتستان کے آئین میں تبدیلیاں لانے کیلئے مجبور کیا۔دیکھا جائے تو تاریخی اعتبار سے شمالی خطے کی حیثیت ہمیشہ ہی امتیازی رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ خطہ سیاسی،فوجی اور سفارتی لحاظ سے کافی حساس ہے۔عصر حاضر کی آئینی تبدیلیوں سے پہلے اس خطے کے ماضی میں جھانکنا لازمی ہے تاکہ اس کی اہمیت واضح ہو جائے اور مختلف اوقات میں یہاں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیںاور ان کے پس پردہ کیا اسباب محرکات کارفرما رتھے۔
گلگت بلتستان کو دیکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ کشمیر کی حساس شمالی سرحد ہونے کے ناطے اِس خطے کی سیکورٹی کے بارے میں ہمیشہ سے ہی تشویش رہی ہے جیسا کہ پچھلی دو صدیوں کے تاریخی مشاہدے میں عیاں ہے۔ 1842ء میں لاہور کے خالصہ دربار نے کشمیر پہ حکمرانی کے دوران (1819-1846) کرنل نتے شاہ کی کمان میں دو سکھ پلاٹونوں پہ مشتمل فوج کے ذریعے گلگت میں اپنے قدم جمائے۔ 16مارچ1846ء کے روز بینامہ امرتسر کی رو سے کشمیر فرہنگیوں نے جموں راجواڑے کے گلاب سنگھ کو بیچ دیاجو لاہور کے خالصہ دربار کے باجگذار تھے لیکن نئی صورت حال میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے گلاب سنگھ فرہنگیوں کے باجگذار بن گئے بلکہ اپنے آپ کو زر خرید کہنے سے بھی نہیں ہچکچائے۔نتے شاہ نے بھی اپنی وفاداری جموں کے ڈوگرہ دربار سے باندھی۔ گلگت کو ڈوگرہ دربار کو بخشنے کے بعد بھی فرہنگیوں نے گلگت پہ اپنی نظر اپنے سیاسی ایجنٹوں اور گلگت ایجنسی کے ذریعے بنائے رکھی چونکہ کشمیر کی شمالی سرحد پہ تین عظیم سلطنتوں برٹش انڈیا، چین و روس کی سرحدیں ملتی تھیں لہذا یہ سرحد ہمیشہ ہی حساس رہی ہے چناچہ مندرجہ ذیل برطانوی مندوبین کو وہاں مختلف اوقات میں تعینات کیا گیا:
(۱) 1876 ء ۔۔لارڑ لیٹن کے دور اقتدار میں جب کہ وہ وایسرائے ہند تھے کیپٹن بڈ لف کو آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی مقرر کیا گیاتاکہ وہ سفارتی مشن پر ہونزاروانہ ہو سکیں۔ گلگت کی منجملہ اکائیوں سے ہونزا پہ قبضہ جمانا و اُس قبضے کو بر قرار رکھنا مشکل ثابت ہو رہا تھا ثانیاَ َہونزا کے سرحد پار ممالک سے روابط تھے۔
(۲) 1877ء ۔۔کیپٹن بڈلف کوگلگت میں تاج برطانیہ کا پولٹیکل ایجنٹ بنایا گیا۔
(۳) 1880ء۔۔بغاوتوںو پسپائیوں نے برطانوی سرکار کو گلگت ایجنسی کے درجے میںکمی لانے پہ مجبور کیا۔
(۳) 1880ء۔۔بغاوتوںو پسپائیوں نے برطانوی سرکار کو گلگت ایجنسی کے درجے میںکمی لانے پہ مجبور کیا۔
(۴)1889ء۔۔ کرنل ڈیورنڈ نے پامیر پہاڑی سلسلے میں روسی اقدامات کے بعد گلگت ایجنسی کو بحال کیا۔اُن کی کتاب 'Making of a Frontier' اُس زمانے کی روئیداد کی مکمل تفسیر ہے۔
(۵) 1893ء ۔۔کیپٹن ینگ ہسبنڈ کو پولیٹیکل آفیسر چترال مقرر کیا گیا۔
(۶) 1895ء۔۔چترال کو کئی جنگی مہمات کے بعد زیر کر لیا گیا تب تک ڈاکٹر رابرٹسن پولٹیکل ایجنٹ بن چکے تھے ۔
(۷) 1935ء۔۔برطانوی راج نے گلگت کو مہاراجہ جموں و کشمیر سے 60 سال کے پٹے پہ حاصل کیاجو کہ ایک معاہدہ کے تحت ہوا ۔
1947 ء میں جب ماؤنٹ بیٹن نے بر صغیر کی تقسیم کے پلان کو نئی شکل دی تو اُسی کے ساتھ اُنہوں نے گلگت کو مہاراجہ کو واپس کرنے کا اقدام کیا۔پس از حکم حاکم فرہنگی مہاراجہ ہری سنگھ نے برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو گلگت وزارت کا چارج سنبھالنے کے لئے بھیجا البتہ برطانوی گلگت ایجنسی کے افسر اعلی گلگت سکاوٹس کے کمانڈر میجر براؤن اُدھر ہی موجود رہے۔اکتوبر1947ء کے آخری ایام میں گلگت سکاوٹس کے فوجیوں نے اپنے کمانڈر کو مجبور کیا کہ وہ گلگت کو پاکستان میں شامل کریں اور ایسا ہی ہوا گر چہ کئی بھارتی مبصر اِسے سامراجی چال مانتے ہیں۔1948ء میں مسلم کانفرنس نے اپنے کراچی سیشن میں یہ قبول کیا کہ پاکستان وہاں ایک الگ انتظامیہ تشکیل دے گر چہ یہ آج تک جموں کشمیر کا حصہ ہی مانا جاتا ہے اور آئینی حثیت میں تبدیلی کے باوجود یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں جموں و کشمیر کا حصہ بنا رہے گا۔
1948ء کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو پاکستانی انتظامیہ کشمیر جسے عرف عام میں آزاد کشمیر کہا جاتا ہے کا حصہ بنانے کے بجائے اُس کی انتظامیہ کا ایک الگ ہی شکل دی لیکن اِس سے اُس کی بین الاقوامی حثیت پہ کوئی اثر نہیں پڑا اور آر پار کی ریاست جموں و کشمیر کے دیگر خطوں کی مانند اِس خطے کی حثیت بھی متنازعہ رہی۔جہاں آر پار کی ریاست جموں و کشمیر کی حثیت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت متنازعہ ہے وہی بھارت و پاکستان آر پار کی پوری کی پوری ریاست کو اپنا حصہ مانتے ہیں۔اِس تنازعے کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو استصواب رائے سے یہ پوچھنے کا موقعہ ہی فراہم نہیں کیا جا تا کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں؟؟ 70برس کے طویل دور میں بھارت و پاکستان کے مابین گفت و شنید بھی وہی لیکن بات وہی کی وہی رہی جہاں فریقین اپنا نظریہ دہراتے ہیں و بات گفتند،شنیدند و برخاستند پہ ٹہر جاتی ہے۔ اِس المیے میں اگر بھارت یا پاکستان اپنی تحویل میں پڑے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کے خطوں میں کسی بھی قسم کی آئینی تغیر کی بات کرتے ہیں تو واولیہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے سفارتی اعتراضات شروع ہو جاتے ہیں پھر بات ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔
گلگت بلتستان میں حالیہ آئینی تغیرات کے بعد پاکستان کو بھارتی اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا جس کی پاکستان نے سنی ان سنی کی ۔اعتراضات کی اِن کڑیوں کا جائزہ لینے سے پہلے آئینی تغیرات پہ نظر ڈالنا مناسب رہے گا جو بھارتی اعترضات کا سبب بنے۔ گلگت بلتستان آرڑر 2018 نے 2009کے سیلف گورننس آرڑر کی جگہ لے لی۔ آرڑر 2009میں گر چہ گلگت بلتستان کی اپنی حکومت تشکیل پائی جہاں گلگت بلتستان کا کابینہ سمیت اپنا وزیر اعلی تھا لیکن قانون ساز اسمبلی کے اختیارات اور عدلیہ کا دائرہ کار محدود تھا۔ 2009کے آرڑر میں گلگت بلتستان کونسل کا عمل دخل تھا جو کہ حکومت پاکستان کے تحت تشکیل پائی تھی ۔ آرڑر 2018 کے تحت لجسلیٹو اسمبلی کا نام گلگت بلتستان اسمبلی ہو گا اور اُس کی قانون سازی کے دائرہ کار کو وسعت دی گئی ہے پس معدنیات، سیاحت و ہیڈرو پاور یعنی پانی سے بجلی کی تولید کی منجملہ قانون سازی کا اختیار گلگت بلتستان اسمبلی کو ہو گا جبکہ پہلے یہ امور گلگت بلتستان کونسل کے دائرہ اختیار میں تھے۔گلگت بلتستان کا خطہ معدنیات میں غنی ہے اور یہاں کی اقتصادی بہبودی کا ایک اہم منبہ بن سکتا ہے بشرطیکہ صیح سرمایہ کاری ہو اِسی طرح گلگت بلتستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 40,000میگاواٹ بجلی وہاں کے پانی سے تولید ہو سکتی ہے لیکن اِس پہ کام نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔سیاحت بھی گلگت بلتستان کی اقتصادی بہبودی کا ایک موثر ذریعہ بن سکتا ہے ۔کہا جا سکتا ہے کہ اقتصادی میدان میں آگے بڑھنے کے کافی مواقع گلگت بلتستا ن کو آرڑر 2018 میں میسر ہوئے ہیں جو کہ اَس خطے کے لوگوں کی دیرینہ مانگ تھی۔
گلگت بلتستان کے عدالتی نظام کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے۔گلگت بلتستان کی عدالت عالیہ کا جج اب پاکستان کی سپریم کورٹ کا سابقہ جج ہوا کرے گا اور وہاں کی چیف کورٹ کو ہائی کورٹ کا درجہ حاصل ہوا ہے جس کے بنچ پہ اب دو جج بیٹھا کریں گے۔ جہاں ماضی میں ججوں کی تقرری وقافی حکومت کرتی تھی وہی اب یہ تقرری ایک پنچ نفری کمیٹی کی سفارشات پہ ہوا کرے گی۔جہاں پہلے گلگت بلتستان کے شہری کو گلگت بلتستان میں ہی شہری حقوق حاصل تھے وہی اب پاکستان کے ہر صوبے میں یہ حقوق گلگت بلتستان کے شہری کو حاصل رہیں گے۔کہا جا سکتا ہے کم و بیش پاکستان کے متفرقہ شہریوں کی مانند گلگت بلتستان کے شہریوں کو حقوق حاصل رہیں گے۔سوال یہ ہے کہ کیا اِن آئینی ترمیمات کے بعد گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ مانا جانا چاہیے ؟؟ابھی تک کوئی ایسا واضح اعلان سامنے نہیں آیا ہے اور اِس بارے میں ابھی گو مگو کی کیفیت جاری ہے چونکہ آر پار کے کشمیر کی گلگت بلتستان سمیت سیاسی حثیت حتمی نہیں مانی جاسکتی جب تک کہ مسلہ کشمیر کا کوئی دائمی حل سامنے نہیں آتا۔
گلگت بلتستان کے مطالبات کے باوجود پاکستانی حکومت کسی واضح اقدام سے گریز کر رہی تھا چونکہ گلگت بلتستان مسلۂ کشمیر سے جڑا ہوا تھا۔بھارت کا ماننا ہے کہ الحاق کی رو سے آر پار کا کشمیر گلگت بلتستان سمیت اُس کا اٹوٹ انگ ہے۔گلگت بلتستان آرڑر 2018 کے بعد بھارت کی وزارت خارجہ میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر سید حیدر کی طلبی ہوئی اور گلگت بلتستان میں پاکستان کے تازہ آئینی اقدامات پہ احتجاج کیا گیا جسے پاکستان نے مسترد کر لیا۔مسلہ کشمیر پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار بھی اِس پہ اظہار نظر کر رہے ہیں۔پچھلے سال کشمیری رہنما یسین ملک پاکستان کے وزیر اعظم اسبق کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں یہی تقاضا تھا کہ گلگت بلتستان میں آئینی اقدامات سے بھارتی حکومت کو ایسے ہی اقدامات کرنے کی شہہ مل سکتی ہے اور یہ مسلہ کشمیر پہ اثر انداز ہو سکتا ہے ۔اِن خدشات کے باوجود پاکستان کو یہ قدم اٹھانا ہی پڑاجس کی وجہ اولاََ تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی اکثریت مطلق کا یہ دیرینہ تقاضا تھا۔اِس کا اندازہ اُن متعددکالموں میں ہوتا ہے جو کہ پاکستانی مطبوعات میں چھپتے رہتے ہیں ۔اِن کالم نگاروں میں کچھ گلگت بلتستان کے دانشور بھی ہیں جن کی تحریر میں یہ واضح ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے مستقبل پہ مسلہ کشمیر کے لائنحل رہنے سے سوالیہ لگا ہوا ہے۔ گلگت بلتستان کے دانشور حضرات اپنی تحریروں کے آئینے میں اُلجھے اُلجھے سے نظر آتا ہے گر چہ مسلہ کشمیر کے لائنحل رہنے سے اِس ریاست کے ہر خطے کے لوگ نالاں نظر آتے ہیں ۔جذبات کا اُلجھاؤ جو اُس پار ہے وہ اِس پار بھی ہے یہ ایک ایسا درد ہے جس کی شدت جتنی اُس پار ہے اُسی حد تک اِس پار بھی ہے۔
اکثر مبصرین کا ماننا ہے کہ گلگت بلتستان میں آئینی تغیرات کے پس پردہ وہ سفارتی دباؤ ہے جو چین کی جانب سے پاکستان پہ پڑ رہا ہے گر چہ اَس دباؤ کا انداز دوستانہ بھی ہے اور مدہم بھی جس کی وجہ یہ ہے کہ چین اپنے سرمایہ کاری کیلئے تحفظ چاہتا ہے۔قارئین یہ ذہن میں رکھیں کہ پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری اب 62بلیون ڈالر کو چھونے لگی ہے اور قدیمی شاہراہ ابریشم کی موجودہ شکل قرارقرم کے کوہستانی سلسلے کے آر پار گلگت بلتستان میں اُبھر رہی ہے۔ چین گلگت بلتستان کی سیاسی حیثیت کو استحکام بخشنے کا سفارتی مطالبہ کرے تو بات سمجھ میں آ سکتی ہے ظاہر ہے چین کے اپنے مفادات ہیں ۔ پاکستان اگر گلگت بلتستان میں چینی خدشات کو ایڈرس کرنے کیلئے کچھ آئینی تبدیلیاں لانا بھی چاہے تو اُس سے اِس خطے کی سالمیت پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا چونکہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ ہے جس کی سالمیت کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آر پار کے کشمیر میںکسی بھی آئینی تبدیلی سے مسلہ کشمیر کی بین الاقوامی حثیت پہ کوئی اثر نہیں پڑا گا اور یہ بات 1951ء و 1957ء کی قراردادوں میں منعکس ہو چکی ہے۔اللہ نگہباں!
یار زندہ صحبت باقی:Feedback on: [email protected]