محدود مالی وسائل ،گھریلو مصروفیات اور جسمانی تکالیف کے باوجود راقم السطور نے اپنے ضلع کے کسی دوست کو اگر قلم کاری کے مشغلے میں ہم وقت مشغول پایا تو وہ علاقہ شاہورہ کے حمید اللہ حمیدؔ صاحب ہیں۔موصوف نے تاحال صحافتی ،مذہبی، تاریخی اور سفر نامہ جیسے موضوعات پر مبنی خامہ فرسائیوں کے علاوہ کئی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ان کا تعلق ایک پیرزادہ علمی گھرانے سے ہے اور مصنف کے والد مرحوم غلام نبی ظہورؔ شاعری اور خوش نویسی سے شغل فرماتے تھے ۔ا سی مناسبت سے حمید اللہ حمید نےؔ قلمی کاوشوں کی دنیا میں قدم رکھا اور اپنے فکر کے گل بوٹے مختلف تحریرات کی صورت میں اس دنیا کے باسیوں سے دادِ تحسین حاصل کی ۔آپ کی تازہ تصنیف ’’گلشن ِکشمیر ‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں منظر عام پر آئی ۔اس میں فاضل مصنف نے حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ کے مفصل تذکرے سے شروعات کر کے یہ بتایا ہے کہ کس طرح اس ولی ٔ کامل نے تین بار دورۂ کشمیر کر کے یہاں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی اورا سی کے ساتھ ساتھ یہاں مختلف دست کاریوں اور فنون متعارف کر کے کشمیری مسلمانوں پر اپنا عظیم احسانات کئے۔اس کتاب میں حضرت میر سید محمد حسین سمنانی ؒ، حضرت بابا نصیب الدین غازی ؒ، حضرت بابا شکر الدین ؒ، حضرت سید جعفر ؒ،شاہ قاسم حقانیؒ جیسے اولیاء کرام کا تفصیلی ذکر بھی موجودہے۔
کتاب کے ایک باب میں حمید اللہ حمیدؔ نے ڈاکٹر علامہ اقبال کا تفصیلی ذکر کر نے کے علاوہ سرکردہ صحافی شمیم احمد شمیم ، انقلابی شاعر عبدالستار رنجورؔ اور اخبار’’ سرچشمۂ حیات ‘‘کے بانی مدیر عبدالرحمن آزادؔ کی زندگی اور قلمی خدمات پر تحقیقی مقالے درج کئے ہیں۔ عبدالستار رنجور ؔکے بارے میں عام جان کاری یہی ہے کہ وہ نظریاتی طور کامریڈ تھے ، حمید اللہ حمیدؔ نے کیگام سے روس تک ان کے سفری مقاصد کا احاطہ کیا ہے۔نیز اردو اور کشمیری زبانوں میں ان کی انقلابی شاعری کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے ؎
پڑھ بلند رنجورؔ بانگ انقلاب اٹھ ہوکھڑا
ہے نماز ِانقلاب اب کر ادا تکبیر کو
فاضل مصنف نے اپنے والد گرامی غلام نبی ظہورؔ کی زندگی کا بھی اجمالی تعارف دیا ہے ۔ان کے بارے میں حمید صاحب رقم طراز ہیں:’’ جس طرح مہجورؔکی’’ گریسی کور‘‘،فاضل کشمیری کی ’’کرالہ کور‘‘ اور لالہ آہ گامی کی ’’بٹہ کور‘‘ نظمیں ان شعراء ک تخلیقی کارناموں میں درج ہیں،اسی طرح غلام نبی ظہورؔمشہور نظم ’’چھانہ کور‘‘ کے خالق ہیں۔اس کے علاوہ علاقہ شاہورہ کا ایک منظوم خاکہ بھی غلام نبی ظہوؔر نے تخلیق کیاہے۔’’ گلشن کشمیر ‘‘میں عبدالرحمن آزادؔ کے بارے میںحمید اللہ حمید صاحب لکھتے ہیںکہ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے باک صحافی بھی تھے،جنہیں قومی استحصال کے خلاف قلم چلانے کی پاداش میںپابند سلاسل بھی کیا گیا، لیکن وہ اپنے موقف سے دستبردار ہونے پر تیار نہ ہوئے۔
پلوامہ ضلع کے ترال علاقے کی ایک عظیم المرتبت دینی شخصیت مولانا نورالدین ترالی کا تفصیلی تذکرہ بھی کتاب میں شامل ہے ۔کشمیری قوالی کے موجد غلام محی الدین بلہ پوری اور معروف کشمیری گلوکار مرحوم عبدالاحد نیامہ کی زندگیوںاور کارناموں سے متعلق تفصیلات بھی کتاب میں درج ہیں۔حمید اللہ حمیدؔ صاحب نے میر غلام رسول نازکیؔ ،تنہاؔ انصاری ،شوریدہ کشمیریؔ، چکبست لکھنوی جیسی سرکردہ ادبی ہستیوں کے علاوہ عبدالغنی ترالی ،محمد رمضان ترالی،عاشق نگینی،فقیرمحمد عبداللہ کی ادبی اور علمی خدمات کا بھی ایک خاکہ کھینچا ہے۔
کتاب میں کشمیرکے مختلف مقامات سے متعلق جانکاری دی گئی ہے۔علاوہ بریں وادی کشمیر میں سال 2014ء کے قہرانگیز سیلاب کی تباہ کاریوں کے موضوع پر بھی مضمون کتاب کی زینت ہے۔صوبہ لداخ کی نیوما وادی، سرینگر اور بڈگام اضلاع کے جغرافیائی خدوخال،ویشو،وستورون اور شاہورہ کی تاریخی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے مصنف نے ارضِ کشمیر کے محل وقوع سے قارئین کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ وادی کے بارے میں ان پہلوؤں کے مطالعے کے شوق کو مہمیز دیتے ہیں۔یہ تصنیف بے شک کئی خوبیوں کا مرقع ہے مگر مصنف کی دیگر تصانیف کی طرح اس میں درج مقالات کو بھی حمید صاحب نے بہ عجلت شائع کیا ہے۔کتاب کو چھاپنے سے قبل کسی صاحب ِفن اور تجربہ کار ادیب یا اہل ِعلم کی نظر وں سے اس کا گذرنا لازم تھاتاکہ مواد ،ایڈئٹنگ اور کمپوزنگ میں بہتری پیدا کی جاسکتی۔ بایں ہمہ’’ گلشن کشمیر‘‘ میں چند اہم موضوعات کو شامل کتاب کرکے مصنف نے اسے ایک بیش بہا علمی سرمایہ بنانے کی قابل ستائش کوشش ضرورکی ہے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہیںسال 2016ء کے نامساعد حالات میں معلومات جمع کر نے کے لئے چار ماہ تک دوردراز علاقوں کا پیدل سفر بھی طے کرنا پڑا، یہ ان کے علمی تجسس اور تحقیقی مزاج کا عکاس ہے۔
تملہ ہال شاہورہ سے آگے بھی ضلع پلوامہ اور مراز کی سرزمین علمی خزانوں سے مالامال ہے۔ اگر ’’گلشن کشمیر‘‘ میں کیموہ گاؤں سے چرارشریف تک حضرت شیخ نور الدین ولیؒ کی پاک زندگی کا سفر کتاب میں شامل ہوتا تو یہ تصنیف زیادہ پر کشش بن جا تی ۔مزید برآں زین العابدین بڈشاہ کے بارے میں مضمون کا عنوان ایک اخباری کالم کی سرخی ہے جو بڈشاہ کی شخصیت سے میل نہیں کھاتی ۔اُمید ہے کہ اپنی تخلیقی سرگرمیوں کے دوران مصنف ایسے لوزمات کو ضرور ملحوظ رکھاکریں گے۔ 300 سو صفحات پر مشتمل ’’گلشن کشمیر‘‘ (مجلد) کشمیر کے سماجی ، ادبی اور علمی حلقوں میں داد ِ تحسین وصول کر چکی ہے۔یہ کتاب سرینگر میں گلشن پبلشرز ، خان نیوز ایجنسی ،کتاب گھر کلچرل اکیڈمی لال چوک،مکتبہ رحیمیہ بانڈی پورہ ،نسیم بک ڈپو پلوامہ اور شاہین بک سٹال کرگل پر دستیاب ہے۔