جہاں تک میری سمجھ میں آیا ہے کہ ہم حضرت اکبرؔ الہ آبادی کو ایک مزاحیہ یا ظرافت پسند شاعر اور سر سید احمد خان صاحب کا دشمن سمجھتے آئے ہیںاور اسی مناسبت سے اُن کو اپنے مقالات اورتحریر و تقریر میں پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔میرے خیال میں ایسا نہیں ہے بلکہ موصوف ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور زندگی کے ہر شعبہ میں سچے دین کی چھاپ دیکھنا چاہتے تھے۔دوسری بات یہ ہے کہ وہ دنیا کے دیگر مروجہ علوم سے متنفر یا بیزار نہیں تھے اور نہ ہی وہ مولانا حالیؔ اور سر سید ؔ احمد خان کے مخالف یا دشمن تھے، البتہ حق بات یہ ہے کہ وہ جان چکے تھے کہ بد یسی اور قابض انگریز لیڈروں کی پالیسی ہے کہ وہ ہندوستان کے کم فہم، گم کردہ راہ مسلمانوں کو اخلاق اور کردار سے تہی دامن کردینا چاہتے تھے ۔انگریز کی سازشوں ،مکاریوں ِ،چالبازیوں اور اوچھی فطرت سے اکبرؔ مرحوم جتنا واقف تھے یا اُن کی منشا ء و مقصد کو سمجھ چکے تھے ،اُس کو نہ مولانا حالیؔ اور نہ ہی جناب سر سید نے جانا یا سمجھا تھا ۔
اسلام دشمن قوتیں بشمول پروٹسٹنٹ عیسائی جو عام طور پر یہود کے آلۂ کار ہیں اور اُن کے ایجنڈے کی عمل آوری ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں ،بذات خود یہودؔ یورپی یونین اور ہندوستان کی رجعت پسند متعصب جماعتیں مسلمانوں کی نماز،روزہ ،حج اور دیگر عبادات سے نہ منحرف ہیں اور نہ معترض بلکہ وہ فقط مسلمانوں کے کردار کے دشمن ہیں اور اُسی کو مسخ کرنے کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہیں۔کچھ عبادات اگرچہ ظاہراً طور ہوتی ہیں مگر جمعہ کی مجلس عام کے سوا باقی عبادات آپ مسجد میں ،گھر میں اُس صورت سے ادا کرتے ہیں جو دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رہتی ہیں اور ان عبادات کا غیر مسلموں پر اثر بھی نہیں پڑسکتا ،مگر یہ ایک کردار ہی ہے جو برملا ہے اور دوسروں کو ایک دم متوجہ کرسکتا ہے ۔ گویا ایک غیر مسلم ایک مسلمان کا کردار دیکھ اور پرکھ کر یہی تاثر لیتا ہے کہ یہی اسلام ہے اور یہی اسلامی تعلیم و تربیت ہے اور وہ اس کا اثر قبول کرکے دائرہ اسلام میں آجاتا ہے ۔اب اگر اس کے برعکس ہو تو اُن کا دل و دماغ اسلام کے تئیں نفرت بٹور لیتا ہے اور تب وہ اُسی آئینے میں اسلام کو دیکھ کر اسلام اور مسلمانوںسے متنفر ہوجاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔اوریہ اغیار کا ایجنڈا ہے مگر حضرت مولانا مرحوم اس معاملے میں اپنے ہم عصروں سے بہت آگے اور دور بین تھے۔
اس میں دو رائے نہیں ہے کہ مولانا حالیؔ نے مسلمانوں میں جدید علوم کے حصول کا جذبہ بیدار کیا اور اُس کے ساتھ ہی سر سید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈال کر انگریزی میں علوم کے حصول کی راہیں ہموار کیں۔دونوں بزرگوں کا جذبہ بے لوث اور قابل ستائش تھا لیکن بعد میں جب تعلیم یافتہ نوجوانوں میں قومی جذبہ اور دینی احساسات کی فکر کو پرکھا گیا تو سارے متعلقین کف ِافسوس ملنے لگے کہ قوم کے بچوں نے ارسطوؔ اور افلاطونؔ کو پڑھنے کے بعد اپنی ہی قوم کو کم تر اور ذلیل گرداننا شروع کیا تھا ۔اس تعلیمی خامی نے جو خرابیاں پیدا کیںاُس کو ریفارمر حضرات تو نہ پکڑ سکے مگراکبرؔ الہ آبادی یہ ضرور چاہتے تھے کہ قوم بے شک مروجہ اور خاص طور پر انگریزی علوم سے استفادہ کرسکتی ہے لیکن یہ سب کرنے کے دوران اور ازاں بعد اللہ کی رسی کو بھی مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی ضرورت ہے ۔بہ صورت دیگر کلیسا کی گھنٹیاں تو سنائی دیں گی،صلیب تو نظر آئے گی مگر کعبہ پس ِپردہ چلا جائے گا ۔چنانچہ اس لئے انہوں نے فرمایا ؎
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کردیا کعبہ کو گم اور کلیسا نہ ملا
علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں میںکافی تبدیلیاں لانا شروع کردیں تھیں ۔ جناب سر سید کے روپ میں اُ ن کو ایک ایسا مسیحا مل گیا جو مغرب کی تقلید کو بُرا نہیں مانتا تھا ۔سرسید پُر خلوص تھے اور مسلمانوں کو دیگر اقوام کے شانہ بشانہ کھڑا دیکھنا چاہتے تھے مگر افسوس یہ ہے کہ اُن کی علی گڑھ تحریک نے قوم کے نوجوانوں کو دین سے بیزار بنا دیا ۔ان کا قومی تشخص ،قرآن اور اسلام سب ان کے لئے بے کار بن چکے تھے اور وہ صرف انگریزوں کی تقلید میں سر سے پائوں تلک ڈوب چکے تھے ۔گویا ’’بس ہوچکی نماز مصلیٰ اٹھایئے‘‘۔کتنی مضحکہ خیز سوچ تھی کہ وہ مذہب اور دینی تعلیم کو ہی ترقی کی راہ میں روکاوٹ سمجھنے لگے تھے ۔وہ بلا شبہ ارسطوؔ،افلاطونؔ اور ڈارونؔ جیسے فلاسفروں سے مرعوب تو تھے اور ان کو ان دانشوروں کے قول و اقوال اور فلسفیانہ موشگافیاں تو زبانی یاد تھیں لیکن وہ مذہب ، دینی تعلیم ،اسلامی ،اخلاقی اورقرآنی ہدایا ت و نصائح سے بہت دور تھے ۔اکبر الہؔ آبادی نوجوانوں کی اس مذہب بیزاری سے دل برداشتہ تھے تبھی تو انہوں نے کہا تھا ؎
اس فرقۂ نو کو میں نے دیکھا اکبرؔ
اسلام اُن کی نظر میں ملحوظ نہیں
توحید اُن کی دلوں میں محفوظ نہیں
اللہ کے ذکر سے یہ محفوظ نہیں
اکبرؔ الہ آبادی مسلمانوں میں انگریزی معاشرت سے گہرا لگائو ،اُن کی تہذیب و تمدن کے ساتھ دلچسپی اور اس کے علاوہ انگریزوں اور متعصب اہل ِ ہنود کی سازشوں کو اچھی طرح سے سمجھ چکے تھے کہ وہ مسلمانوں کے کردار ،ان کی سوچ اور اپروچ بلکہ دینی عقائد میں لادینی کے جراثیم داخل کرکے اُن کو مادہ پرست ،ذہنی عیاش اور جنسی بے راہ روی کا خوگر بنا رہے تھے ۔ تو اس صورت حال کو اکبرؔ نے اچھی طرح سے محسوس کیا جس سے اُن کو بہت دکھ ہوا تھا ۔وہ اپنی مرضی اور منشاء کے خلاف مختلف ماحول کو پروان چڑھتا ہو ا دیکھ رہے تھے ۔ان کی خواہش تھی کہ قوم کے نوجوان بلکہ مجموعی طور پر سارے مسلمان اللہ سے دور نہ ہوں بلکہ اسلامی تعلیم و تربیت سے ہی ان کی زندگی میں انقلاب آجائے ۔اسلامی تعلیم اور اسلامی نظریات ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن جائے ۔اسی لئے تو فرماتے ہیں ؎
مذاق قوم بیگانہ ،نہ ہو اللہ اکبر سے
یہ نقش ِجاں فزا مٹنے نہ پائے دل کے دفتر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995