گستاخانہ کلمات اور ہماری ذمہ داریاں

حافظ میر ابراہیم سلفی
       بنی آدم کی تخلیق سے لیکر قیامت کی صبح تک نبی کریمؐ جیسا نہ کوئی آیا نہ آئے گا۔ اللہ رب العزت نے نبی کریم ؐ کو سید البشر و سید المرسلین کے اعزاز سے نوازا ہے۔ 

ایمان ربانی، بندگی، حسن اخلاق، حسن معاشرت، قانون ربانی، سیاست الٰہی، حسن و جمال کی کامل صورت نبی کریم ؐ نے کائنات کے سامنے رکھی۔ امام اعظم محمدرسول اللہ ؐ نعمت تمام اور اسلام کی عمارت مکمل کرنے کے لئے مبعوث فرمائے گئے۔ رسالت نبویؐ و نبوت محمدیؐ سے سابقہ شریعتوں کو منسوخ فرمایا گیا۔ہدایت کی واحد راہ، کامیابی کی واحد راہ، فتح و نصرت کی واحد راہ ،راہ نبویؐ ہے۔ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم عالم ثقلین کے لئے رحمت الٰہی، نافرمانوں کے لئے نزیر جبکہ مطیع اور صالحین کے لئے بشیر بنا کر بھیجے گئے۔تاجدار حرم کو سیدنا ابراہیم ؑ کی دعا کی تکمیل اور سیدنا عیسیٰ  ؑکے خواب کی تعبیر کی صورت میں مبعوث فرمایا گیا۔ فرمان ربانی ہے:  (ترجمہ) ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘(سورہ جمعہ) 

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو نورانی پیغام کے ساتھ قوم کی طرف بھیجا جس نور سے کفر و شرک کی ظلمات کو مٹایا گیا، انسانی پستی و غیر اخلاقی کو دفن کردیا گیا، معاشرے کو جرائم و فحاشی سے پاک کروایا گیا۔ طیبات کو حلال جبکہ خبائث کو حرام قرار دیا گیا۔انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کے لئے اللہ رب العزت نے نبی نازنینؐ کو مبعوث فرمایا۔ربانی آئین کو نافذ کرنے، طاغوتی و سامراجی (ناقص) طاقتوں کو مٹانے کے لئے نبی رحمتؐ کو حاکمیت ربانی کے ساتھ کائنات کی طرف بھیجا گیا۔ ہمارے نبی کریمؐ پر اٹھنے والی نجس، پلید انگلیاں اپنے لیے ہی تباہی کا سامان جمع کررہے ہیں، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ 

امام کائنات ؐ کے خلاف زبان دراز کرنے والے اس روئے ارض پر بدترین مخلوق ہیں لیکن ان سے ہمدردی کرنے والے، ایسے ظالموں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے یا انکی حمایت کرنے والے ان سے بڑ کر لعین و مردود مجسمے ہیں۔گستاخ رسول ؐ پر لعنت کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت مبارکہ ہےجو اس بات پر واضح نص ہے کہ گستاخ رسولوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔مسلمان قانون کو ہاتھ میں لینے کے قائل نہیں اور نہ کبھی مسلمان قانون کو ہاتھ میں لے گا۔ مسلمان کبھی بھی وطن میں انتشار نہیں چاہتا۔ لیکن ایسی صورتحال میں اپنی ہر صلاحیت، اپنی ہر قوت، اپنے لیل ونہار ایک کرکے گستاخ رسولوں کے خلاف آواز اٹھا کر ارباب اقتدار تک یہ بات پہنچانا چاہتے ہیں کہ ہمیں انصاف چاہیے۔ حکومت ہند کو بھی لازمی چاہیے کہ ایسے نجس، پلید، افراد کو جلد گرفتار کیا جائے تاکہ ملک کو فتن و فساد سے بچایا جاسکے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ قوم کو امن و سلامتی کی دعوت دی لیکن دوسری طرف امن و آشتی کو بگاڑنے کے لئے بعض منافرہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ ملک ہند میں انتشار پھیلایا جائے۔حکومت ہند کو چاہیے کہ ایسے اشخاص کو highlight کرکے ان کو عبرت ناک سزا دی جائے۔عرب و عجم کے مسلمانوں کے دل زخمی ہوچکے ہیں، ہماری ارواح بے چین و بے قرار ہیں اور یہ بے چینی تب تک رہے گی جب تک موجودہ حکومت ان کے خلاف کاروائی نہ کرے۔ نبی کریم ؐ نے دشمنوں کے ساتھ بھی عظیم رحم و کرم کی مثالیں قائم کی ہیں۔ پتھر اٹھانے والوں پر پھول برسائے، طرح طرح کے الزام لگانے والوں کو ہدایت کی دعائیں دی گئی۔ جس کی کئی ایک روشن مثالیں سیرے طیبہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔لیکن جب حدود پامال ہوگئی پھر اللہ رب العزت نے ابو لہب و ابو جہل کی طرح ظالموں کو نیست و نابود کردیا۔گزشتہ سال میں ملعون وسیم رضوی نے یہ ناپاک کوشش کی تھی، دنیا نے اسکی ذلت و رسوائی کا منظر دیکھ لیااور اللہ فاسقین کو ایسے ہی رسوا کرتا ہے۔ثانیاً اسلام کے دعوے داروں کو چاہیے کہ عملی نبی کریمؐ کی ناموس کا دفاع کرنے والے بن جائیں، وہ تب ہوگا جب ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، ہمارے عقائد، ہماری عبادات، ہماری سیاست، ہمارے معاملات، ہمارا رہن سہن، ہمارا اخلاق، ہماری تجارت، ہماری معیشت و معاشرت نبی کریم ؐ کے سنن کے مطابق ہوگی۔انفرادی سطح پر ایک عام مسلمان کو چاہیے کہ عملاً نبی کریمؐ کے حقوق ادا کریں جو کہ شرط ایمان ہے۔اقوال و افعال میں کوئی تضاد نہ ہو،ظاہر و باطن میں کوئی فرق نہ ہو، مسلمان کا دل نفاق کے روگ سے پاک ہو۔چند سطور میں نبی کریم ؐ کے حقوق بیان کرنے جارہا ہے۔

۱۔ اول حق یہ ہے کہ ایک مسلمان صدق دل سے محمد رسول اللہؐ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی و آخری رسول جانے۔زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور جوارح سے عملاً ثبوت دینے والا ہو۔قرآن و سنت میں بیان شدہ عظمت کا دل سے اعتراف کرنے والا ہو۔ صدق دل سے معجزات نبوی ؐ کو سچا اور حقیقی جاننے والا ہو۔ 

۲۔ ثانیاً ایمان کا دعویٰ تک تک جھوٹا ہے جب تک نفس و جان سے، عیال و قرابت داروں سے، پوری کائنات سے نبی کریم ؐ محبوب نہ ہو۔

۳۔  ہر مسلم پر لازم ہے کہ نبی کریمؐ کی ذات مبارکہ کا بھی احترام کرے اور نبی کریم ؐ کے اقوال و افعال مبارک کا بھی اکرام کرے۔ نبی ؐ کی ذات کا بھی احترام ہو اور بات (مبارک) کا بھی احترام ہو۔قولی، فعلی، تقریری، خلقی، صفتی سنتوں کا احترام ہو،اس ادب و احترام میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔ 

۴۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مطلب اوامر پر عمل، نواہی سے اجتناب اور اخبار کی تصدیق ہے۔آج ملت اسلامیہ جس پستی کی شکار ہے اس کی ایک بڑی وجہ نبی کریم ؐ کی سنتوں سے بغاوت ہے۔ ہماری زندگی کا ہر شعبہ آج سنتوں سے خالی ہے۔نبی کریمؐ کی مبارک ذات پر جو نجس انگلیاں اٹھ رہی ہیں، کسی حد تک ہمارا گیا گزرا کردار بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ ہمارا گفتار و کردار شرعی تعلیمات کے خلاف ہے۔

۵۔ نبی کریم ؐ کی مبارک ذات کا دفاع کرنا، احادیث و سنن کا دفاع کرنا ہر مسلمان پر حسب استطاعت واجب و فرض عین ہے۔ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے خلاف اعلان براءت کرنا، ان کا قلع قمع کرنا، ان کا رد کرنا ملت اسلامیہ پر لازم ہے۔ منکرین حدیث کا تعاقب علمی اصولوں سے کرنا علماء وقت پر فرض ہے۔ 

۶۔ قدرت کا قانونی اصول ہے کہ محب اپنے محبوب کا ذکر کثیر خیر کے ساتھ کرتا ہے۔ تاجدار حرم نبی کریم ؐ ہمارے دلوں کی دھڑکن، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم بھی اس مبارک ہستی پر درود بھیجیں جن کی ثناخوانی خود پروردگار عالم نے فرمائی ہے۔فرمان نبوی ؐ ہے کہ ’’جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا‘‘۔(صحیح مسلم) 

عصر حاضر میں ناموس رسالتؐ کا دفاع کرنے کے معاملے میں شباب امت کو صف اول میں ہونا چاہیے۔ لیکن ہائے حسرت! نبی کریم ؐ کی شان میں ظالموں نے نازیبا کلمات کہے لیکن قوم کا شباب اپنی ہی خواہشات کی پیروی میں لگا ہوا ہے۔ملت کے نوجوان اتنا سب کچھ دیکھ کر بھی فحاشی و عریانی کی رقص و سرور کی محفلوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس سے بڑھ کر ہمارے لئے زوال کیا ہوسکتا ہے؟ نوجوان ملت ناجائز حرام تعلقات میں، منشیات کی ذلالت میں، عیش پرستی کی ہوس میں جل کر راکھ ہوچکا ہے۔اگر قوم کا مستقبل بیدار ہوتا تو آج کسی کی ناپاک زبان، کسی کا آوارہ قلم ہمارے محبوب سیدنا محمد رسول اللہؐ کے خلاف استعمال نہ ہوتا۔اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ قوم کے شباب کو ایمانی شعور و ایمانی غیرت سے نوازے اور ابھرتے ہوئے فتنوں سے اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین 

(رابطہ ۔6005465614)