عنوان کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ایک تہمید طولانی بھی مجبوری ہے ۔چند ماہ بعد ہی کاشت کار باغات اور کھیتوں میں اس سال کی فصل کاٹ رہے ہونگے۔ ظاہر ہے شالی کی کٹائی، دُھنائی وغیرہ اور میوہ جات کی پیکنک ایک محنت طلب کام ہے جسکے لئے افرادی قوت اور مناسب ماحول درکار ہے۔ یہ وہ وقت ہوگا جب پاکستان میں نئی حکومت کا اعلان ہوچکا ہوگا، اور حکومت ہند جموں کشمیر میں گورنر راج میں توسیع یا انتخابات کے انعقاد یا کسی درمیانی راستہ سے متعلق تذبذب میں مبتلا ہوگی۔ پاکستان میں عمران خان کو اقتدار ملے یا کوئی مخلوط حکومت قائم ہوجائے، لیکن یہ طے ہے کہ کشمیر پالیسی تب تک جمود کا ہی شکار رہے گی جب تک فوجی قیادت اور سول حکومت کے درمیان ایک طرح کی ورکنگ ریلیشنشپ قائم نہیں ہوتی۔ اِدھر آر ایس ایس نے ملک گیر سطح پر معیشت، رام مندر، یکساں سول کوڈ، لو جہاد، گٔو رکھشا یا تبدیلیٔ مذہب جیسے نعروں کی جگہ کشمیر کو اپنا کور انتخابی ایشو بنادیا ہے۔ مطلب سات دہائیوں میں پہلی مرتبہ ایک ارب پچیس کروڑ نفوس پر مشتمل اس ملک میں اگلی حکومت کا قیام محض اس بات پر منحصر ہوگا کہ کشمیر میں غالب جذبات کو کس قدر کچلا گیا۔
اور پھر داخلی سطح پر کشمیر کی سیاست افراتفری کا شکار ہے۔ کسی زمانے میں عوام کو جمہوری طرز کی مزاحمت کا خواب دکھانے والی پی ڈی پی اپنی بے وقعتی پر اس قدر شرمسار ہے کہ لوگوں کا سامنا کرنے کے بھی قابل نہیں۔ نیشنل کانفرنس اس ویکیوم کو بھرنا چاہتی ہے، لیکن اس جماعت کا رپورٹ کارڑ اس قدر فرسودہ نہیں کہ لوگوں کو یاد نہ ہو کہ این سی دور میں ان کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا۔ کانگریس تو خیر حاشیہ پر ہے اور بی جے پی وادی میں پیر پسارنے کے لئے کشمیری اتحادیوں کو اگرچہ خرید نہیں سکتی مگر کرایہ پر لینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مزاحمتی قیادت مخصوص حالات کی وجہ سے ـ’’شاخ تراشی‘‘ کا شکار ہوکر سہ نفری محاذ تک محدود ہوگئی ہے، لیکن یہ قیادت بے پناہ عوامی سپورٹ کے باوجود عوام کے ساتھ رابطہ استوار نہیں کر پارہی کیونکہ حکومت نے تینوں قائدین پر پہرے بٹھارکھے ہیں۔
یہی نہیں عام لوگ بھی آپریشن آل آؤٹ کی وجہ سے خود کو اپنے ہی گھروں میں قید پاتے ہیں۔تازہ مثال یہ ہے کہ پلوامہ میں جب فوج، نیم فوجی اہلکاروں اور پولیس کے دستوں نے کریک ڈاؤن کیا تو مقامی نوجوانوں نے زیادتیوں یا گرفتاریوں کے خوف سے پوری رات درختوں پر گزاری۔ والدین یا تو اپنے پیاریوں کی ہلاکتوں پر ماتم کناں ہیں یا پھر روپوش ہوئے نونہالوں کی لاشوں کے منتظر۔حالات کا اثر یوں تو ہر چہارسو ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنوبی کشمیر کے چار اضلاع کو ایک ’منی وارزون‘ بنایا گیا ہے جہاں ملٹری آپریشن کی کارکردگی سے ہی بھارت کی قومی سیاست کو خوراک مل رہی ہے۔ معیشت کا حال بھی برا ہے۔ اس سال بھی سیاحت کی صنعت روبہ زوال ہی رہی، اور عام تجارت کو بھی ہمہ جہتی مسائل کا سامنا ہے۔ تعلیمی نظام دہائیوں سے ایک انقلابی تبدیلی کا متقاضی ہے، لیکن ہمارے یہاں صرف اساتذہ کی تبدیلی، ایڈمیشن عمل میں سختی اور اشرافیہ کے اقربأ کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے مسابقتی امتحانات کے عمل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے سوا اور کچھ نہیں ہورہا ہے۔
کشمیر کی 70لاکھ آبادی کا63فی صد 12اور 42سال کی عمر کے درمیان ہے۔ مطلب یہ ایک ینگ آبادی ہے، اور نوجوانوں کو ہر طرف سیاہ بادل نظر آتے ہیں اور وہ اندھیروں کی اس دبیض چادر کو اپنی سینہ چاکی سے کاٹ پھینکنا چاہتے ہیں۔نوجوانوں کے اسی آتش فشانی جذبے نے کشمیر سے متعلق حکومت ہند کے سیکورٹی ڈاکٹرین کو نہ صرف ناکام بلکہ غیر متعلق کردیا ہے۔ ایسے میں بھارت کی ڈیپ سٹیٹ میں یہ تجاویز گونج رہی ہیں کہ کشمیر میں سب سے بڑا مسلہ علاقائی سیاست ہے، یعنی ’’مین سٹریم‘‘ سیاسی سٹرکچر بھارت کا حقیقی وفادار نہیں ہے بلکہ یہاں کے ہندنواز سیاستدان لوگوں کی ہمدردیاں بٹورنے کے لئے ’’پروپیپل‘‘ مکھوٹا پہنتے ہیں جس سے علیحدگی پسند جذبات ختم ہوجانے کی بجائے مزید شدت کے ساتھ اُبھرتے ہیں۔ اس سلسلے میں اترپردیش کے ایک آر ایس ایس حامی اَودیش پرتاپ سنگھ نے طویل مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ دفعہ 370ہٹانے کی خواہش رکھنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ نریندر مودی اور اجیت ڈووال اس سے بھی آگے کی سوچ رہے ہیں۔ مسٹر سنگھ نے حکومتی ذرایع کا حوالہ دے کر دعویٰ کیا ہے کہ حکومت جموں ، کشمیر اور لداخ کو تقسیم کرکے مرکز کے زیرانتظام خطے یعنی یونین ٹیریٹریز بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ تینوں خطوں میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہوگی بلکہ تینوں دلی، پانڈی چری وغیرہ کی طرح براہ راست مرکز کی حکمرانی میں ہونگے، اور تینوں خطوں میں ایک لیفٹنٹ گورنر ہوگا جو براہ راست دلی کو رپورٹ کرے گااور دلی کے سامنے ہی جوابدہ بھی ہوگا۔
اگر یہ مضمون واقعی حقیقت پر مبنی ہے تو یہ منصوبہ تین سال کے اندر اندر انتخابی حلقوں کی مجوزہ ڈی لمیٹیشن کے پیش منظر میں اور بھی بھیانک معلوم ہوتا ہے۔ یہ صورتحال علیحدگی پسندوں سے زیادہ اقتدار پسندوں کے لئے خطرناک ہے۔ چند ہفتے قبل فاروق عبداللہ نے ’’سب کو ساتھ لے کر چلنے‘‘ کی بات کی تھی، لیکن یہ مرحلہ سنجیدگی سے غور کرنے کا ہے کہ کشمیریوں کو بے سیاست Depoliticiseہونے سے کیسے بچالیا جائے۔
اب جبکہ ریاست کی اسمبلی اور یہاںکی نام نہاد مین سٹریم سیاست اس قدر بے وقعت ہوگئی ہے کہ دلی کا حکمراں طبقہ اسے بوجھ سمجھتا ہے، تو اقتدارپسندوں کو اپنی سماجی ریلونس کی بحالی کے لئے حرصِ اقتدار اور مرعات سے اوپر اُٹھ کر سوچنا چاہیے۔اگر اقتدار بچانے کے لئے کل جماعتی اجلاس بلائے جاسکتے ہیں، تو حالات پر غور و فکر کرنے کے لئے کیوں نہیں؟ مزاحمتی خیمے کو بھی صورتحال کے نازک ترین پہلوؤں پر کھلے ذہن سے غور و خوض کرکے نئے امکانات کو تلاش کرنا ہوگا۔یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ تنازعہ کے دو بڑے سٹیک ہولڈرس بھارت اور پاکستان کو بائی پاس کرکے کوئی بھی وسیع البنیاد سیاسی اتحاد ممکن ہی نہیں، لیکن کم ازکم یہاں کے سیاسی حلقے حق خودارادیت پر جمع ہوکر کوئی راستہ نکال سکتے ہیں۔ اسکے لئے پاکستان اور عسکری قیادت کا آن بورڈ ہونا ازبس ضروری ہے۔ اگر مہاراجہ ہری سنگھ کے فرار کے بعد کشمیر میں ایمرجنسی ایڈمنسٹریشن قائم ہوسکتی ہے، تو فی الوقت بھی اقوام متحدہ کے ہندپاک کمیشن کے زیرنگرانی ایک ایمرجینسی انتظامیہ قائم ہوسکتی ہے جب تک دونوں ملک مسلہ کے حتمی حل پر متفق ہوجائیں۔یہ ایک آئیڈیل سچویشن ہے، لیکن اگر اقتدار پسند ٹولہ واقعی اپنے وطن عزیز کے تئیں رتی بھر جذبہ بھی رکھتا ہے، تو اسے اپنی سیاست اور اقتدار کی خواہش کو غالب عوامی اُمنگوں کے آئینے میں دیکھنا پڑے گا۔ اور مزاحمتی خیمے کو بھی سمجھنا ہوگا کہ گرینڈ الائنس اب ایک مجبوری ہے، لہذا مجبوریوں کے پس منظر میں اتحاد سخت اصولوں نہیں بلکہ تذویراتی تقاضوں کے تحت ہوتے ہیں۔انسانی تاریخ اور اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب عوام کی بقا اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کی خاطر ماضی کو بھلا کر حریفوں سے بھی ہاتھ ملایا گیا۔
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)