سرینگر //ریاستی سرکار نے اگرچہ جمعہ کو گروپ انشورنس سکیم کے تئیں ایک آڈر جاری کرتے ہوئے تمام محکمہ جات ڈی ڈی اوز سے کہا ہے کہ وہ اس ماہ کا انشورنس قسط نہ کاٹے تاہم سکیم کے شروع ہونے کے بعد جن ملازمین کی تنخواہ سے پہلی قسط کاٹی جا چکی ہے اُن کا الزام ہے کہ انہیں کمپنی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر رہی ہے اور ان کے کیس بھی حل نہیں کئے جا رہے ہیں ۔ معلوم رہے کہ سرکاری ملازمین سے کہا گیا تھا کہ وہ 31دسمبر سے قبل اپنے دعویٰ پیش کر سکتے ہیں۔ محکمہ خزانہ نے حال ہی میں ایک آڈر جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ 31دسمبر 2018ء کی نصف شب تک جو بھی ملازم یا اْن کے افراد خانہ سکیم کے تحت درج ہوں وہ بنا نقدی کے علاج معالجہ یا پھر اس کا خرچہ وصول کرنے کے حقدار ہوں گے اور اگر کسی ملازم یا اْس کے افراد خانہ نے اپنے خرچے پر علاج و معالجہ کرایا ہو وہ اس خرچے کی ادائیگی کا دعویٰ پیش کرسکتے ہیں کیونکہ وہ سکیم کے تحت انرول کئے جاچکے ہیں اس سلسلے میں اگرچہ آج ایک حکم نامہ بھی جاری کیا گیا اور اس کے تحت یہ وضاحت کی گئی کہ ڈی ڈی اوز کی طرف سے اس ماہ کی پریمیم کی مزید قسط اب نہیں کاٹی جائے گی تاہم کئی ایک ملازمین جنہوں نے پہلے قسطیں ادا کی ہیں ، اُن کا الزام ہے کہ وہ پچھلے کچھ روز سے جموں اور سرینگر میں انشورنس کمپنی کے آفس پر اپنے کیسوں کو لیکر جا رہے ہیں لیکن انہیں وہاں سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل رہا ہے اور اس طرح ان کی انشورنس کلیم ضائع کی جارہی ہے جبکہ کئی ملازمین نے اپنے کیس بھی کمپنی کے سامنے رکھے ہیں ،ایسے ملازمین کا کہنا ہے کہ ملازمین کے اس وقت قریب کروڑوں روپے کمپنی کے پاس پہلی قسط موجود ہیں لیکن ان کا اب کیا ہو گا اُس کا جواب نہ ہی سرکار کے پاس ہے اور نہ ہی کمپنی کے پاس ۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ انہیں اندیشہ ہے کہ اُن کا یہ پیسہ کمپنی ہضم کرلے گی ۔ معلوم رہے کے اس انشورنس سکیم کا کنٹریکٹ انیل امبانی کی کمپنی کو دیا گیا تھاجس کے بعد کئی حلقوں کی طرف سے اس عمل کی حقیقت سے متعلق شک و شبہات کا اظہار کیا گیاجن میں سماج اورمیڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی افراد شامل تھے اس اعتراض کے بعد حالیہ دنوں گورنر ستیہ پال ملک نے ریاست کے ملازمین اور پنشنروں کیلئے گروپ میڈکلیم ہیلتھ انشورنس پالیسی کے سلسلے میں عمل آوری اور میسرز ریلائنس جنرل انشورنس کمپنی کے ساتھ کنٹریکٹ کو منسوخ کرنے کی منظوری دی۔معلوم رہے کہ یہ سکیم یکم اکتوبر کو لاگو کی گئی تھی جس کے بعد پہلی قسط کے طور ملازمین سے پیسے وصول کئے گے سکیم کو لاگو کرنے کے دوران یہ کہا گیا تھا کہ اس پالیسی کے ذریعے علاج ومعالجہ ملک بھر کے پانچ ہزار ہسپتالوں میں کرانے کی گنجائش ہو گئی ۔ایجیک صدر عبدالقیوم وانی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس سکیم کے تحت ملازمین کو چار قسطوں میں پیسے جمع کرنے تھے پہلی قسط جمع ہونے کے بعد جب اس سکیم کو ہی گورنر نے منسوخ کر دیاتو اس کے بعد ہم نے محکمہ خزانہ کے پرنسپل سیکریٹری سے بات کی جس کے بعد انہوں نے یقین دلایا کہ 31دسمبر تک جتنے بھی ملازمین نے قسط بھری ہے وہ اگر چاہیے تو ریاست کے کسی بھی ہسپتال جو اس سکیم کے تحت آتے ہیں اُس میں اپنا علاج ومعالجہ کرا سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کئی ملازمین کے مسائل حل ہوئے ہیں اور کئی ایک کو ابھی بھی دقتیں پیش آرہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اب فیصلہ لیا ہے کہ 31دسمبر کے بعد کوئی بھی قسط نہیں کاٹی جائے گئی جب تک نہ کوئی نئی انشورنس سکیم لاگو کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سرکار سے مطالبہ ہے کہ ملازمین کیلئے یہ سکیم کافی اہم ہے کیونکہ میڈیکل انشونس انہیں وقت پر نہیں ملتا ہے جس سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔انہوں نے سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ نئی انشورنس سکیم کو لاگو کیا جائے تاکہ ملازمین کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔