سرینگر//تحریک حریت نے عمر عادل ڈار کو گرفتار کرکے سینٹرل جیل سرینگر منتقل کرنے، ماسٹر علی محمد حاجن کو دوبارہ گرفتار کرنے، صدرِ ضلع بارہ مولہ امیرِ حمزہ شاہ، عبد الحمید پرے کو مسلسل 3سال سے نظربند رکھنے اور عبدالغنی بٹ، مفتی عبدالاحد، غلام الدین وار اور محمد اشرف ملک کو دوسال کی نظربندی کے بعد پھر عدالتی ریمانڈ پر تھانوں میں بند رکھنے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوکر آزادی پسند قیادت اور کارکنوں کی سیاسی سرگرمیوں سے روزِ اول سے ہی خوفزدہ ہے اور اسی لیے آزادی پسندوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا جاتا ہے اور حکومت نے بھارتی حکومت کی بیساکھیوں کا سہارا لیکر بھارت کی خوشنودی کی خاطر تحریک حریت کی سیاسی سرگرمیوں پر عملاً پابندی عائد کردی ہے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق اور آزادیٔ رائے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور جن فرضی الزامات کے تحت قیادت اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، عدل وانصاف کا تقاضا تھا کہ اظہارِ رائے کا حق دیا جاتا، مگر جموں کشمیر کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں زبانوں پر تالے چڑھائے گئے ہیں اور جرم بے گناہی کی سزا پوری قوم کو دی جارہی ہے۔ بار بار وہی فرضی الزامات عائد کرکے ایکٹ پر ایکٹ لگاکر وادی سے باہر جیلوں یا تھانوں میں پابند سلسل کرکے انتقام لیا جارہا ہے، جس کا کوئی قانونی، سیاسی یا اخلاقی جواز نہیں ہے۔ عمر عادل ڈار کو چاڈورہ میں گزشتہ سال کے شہداء کی یاد میں بلائے گئے جلسے میں شرکت کرنے سے روکنے اور ماسٹر علی محمد حاجن کو ایک شہید کے نماز جنازہ کی پیشوائی کرنے کے ’’جرم‘‘ میں گرفتار کرنا، عبدالحمید پرے کو گزشتہ 3برسوں سے بلاجواز جیل اور تھانے میں بند رکھنا حکومت اور انتظامیہ کے اعصاب پر سوار خوف کی واضح علامت ہے۔ ماسٹر علی محمد کی عمر 80سال کے قریب ہے ایک ماہ پہلے ہی دو سال کی نظربندی کے بعد رہا ہوا تھا۔ اس نے حاجن میں ایک شہید کی نماز جنازہ پڑھائی اسی بنیاد پر اس کو ایک ماہ قبل پھر سے گرفتار کرکے حاجن تھانے میں بند رکھا گیا ہے۔ جو تھانے میں انتہائی علیل ہیں۔ امیرِ حمزہ شاہ اور عبدالحمید پرے 2016ء کی عوامی تحریک سے پہلے ہی گرفتار کئے گئے تھے اور گزشتہ 3برسوں سے وہ حکومتی عذاب وعتاب سہہ رہے ہیں۔ تحریک حریت نے ان گرفتاریوں کو حکومتی بوکھلاہٹ قرار دے کر ان کی رہائی پر زور دیا۔