کی محمد ؐسےوفا تونے تو ہم تیرے ہیں فکر و فہم

File Image

ماجد مجید ،کشمیر یونیورسٹی

’’اے نبی ؐ! کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اور اطاعت کرو ،بدلے میں تمہارے گناہ بخشے جائیں گے۔‘‘
تو کیا تم صرف عید میلادالنبی مناکر جلسے کر کے اور جلوس نکال کر یا ذوق و شوق کے ساتھ درود و سلام بھیج کر اپنے فرض منصبی سے عہدہ بر اہو جاؤ گے ،ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔
جان لو کہ جو کام آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے قبل انبیاء و رسلؑ کیا کرتے تھے۔ آپؐ کے بعد وہ سب کام تمہارے ذمے ہے خواہ دعوت و تبلیغ، انذار و تبشیر تعلیم و تربیت اور اصلاح و تزکیہ پر مشتمل فریضہ شہادت حق ہو یا اقامت دین اور اظہار دین حق علیٰ الدین کلہ پر مشتمل بعثت محمدیؐ کا مقصد امتیازی اور منتہائے خصوصی ہو ،اس اعتبار سے یہ سارے فرائض اب تم لوگوں پر عاید ہوتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہو اور آپؐ کے نام نامی سے منسوب ہونے پر فخر کرتے ہو اور آپؐکی اُمّت میں ہونے کو موجب سعادت جانتے ہو۔تئیس(23) برس کی محنت شاقہ کے نتیجے میں حق کا بول واقعتاً بالا ہوگیا اور سرزمین عرب پر دین کا پرچم فی الواقع لہرانے لگا، تا آنکہ حج الوداع کے موقعہ پر سوا لاکھ افراد کے اجتماع سے الاھل بلغت کے جواب میں یہ گواہی لینے کے بعد کہ نَشھَدُ انک قد بلغت وادیت ونصحت آپؐ چند ہی ماہ کے اندر اندر رفیق اعلیٰ کی طرف رحلت فرماگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی تمام ذمہ داریاں امت کے کاندھوں پر آگئیں۔چنانچہ تیس سال کی قلیل سی مدت میں اللہ کے دین کا پرچم اس وقت کی معلوم دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر لہرا دیا۔

وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

اس کے بعد شروع ہوا زوال کا وہ عمل جو تیرہ صدیوں تک جاری رہا تا آنکہ موجودہ صدی کے آغاز میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ دین حق غریب الغرباء بن کر رہ گیا۔موجودہ دور میں تم سب دنگے ،فساد، لوٹ مار، قتل وغارت گری، جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوگئی ہو۔ تمہاری تعداد سوا ارب سے زائد ہونے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر تمہاری رائے کی کوئی حیثیت نہیں جیسا کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا : ’’مجھے اندیشہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ نہایت کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود بھی تمہاری حیثیت سیلاب کے ریلے کے اوپر جھاگ سے زیادہ نہیں رہے گی۔ کیونکہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہوجائو گے اور موت سے نفرت کرو گے ،اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں ’’دہن‘‘ کی بیماری ڈال دے گا۔‘‘

ابلیس کو خوش کرنے کے لیے اور کیا چاہیے۔ موجودہ دور میں اُمّت کی کثیر تعداد نے ایک الگ مزاج اپنائے رکھا ہے اور اللہ کو صرف مسجدوں اور درگاہوں میں قید کر کے ابلیس کے لیے جنسی بے راہ روی، دنگا فساد، موسیقی ، رقص کا میدان کھلا چھوڑا ہے اور خود قرآن اور نبی کریم ؐ کے احکامات سے دوربھاگے جارہے ہو۔آج قرآن کے ساتھ تمہارا اس کے سوا کوئی سروکار نہیں کہ تم کسی شخص کو عالم نزع میں اس کی سورۂ یٰسین سناتے ہو، تاکہ اس کی جاں آسانی سے نکل جائے۔اللہ کے بندے ! آج تیری ذلت اور رسوائی کا سبب یہ ہے کہ تو قران سے دور اور بے تعلق ہوگیا ہے۔ اپنے فرص منصبی کو بھول چکا ہے، ہوش میں آجائو اوریادکرو اس حدیث کو، جس کے راوی حضرت علیؓ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،میرے پاس جبریل آئے اور کہا اے محمدؐ! آپؐ کی اُمّت آپؐ کے بعد اختلاف کا شکار ہوجائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے جبریل نکلنے کا راستہ کیا ہوگا، جبریل نے جواب دیا اللہ کی کتاب اور اس کے مطابق فیصلے کرنا ۔اللہ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اے نبیؐ! کہہ دیجئے کہ آپ وہ بہترین اُمت ہو جو اعلیٰ منصب پر فائز ہوچکی ہے ،اپنے عہد پر ڈٹے رہو۔ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اور اطاعت کرو ،بدلے میں اللہ تم سے محبت کرے گا۔
کی محمد ؐسےوفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
[email protected]