سیدہ طیبہ کاظمی،پونچھ
عالمی یوم صحت کے موقع پر ملک کے نامور اپولو ہسپتال نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بہت جلد ہندوستان دنیا میں کینسر کے مریضوں کی سب سے زیادہ تعدادوالا ملک بن جائے گا۔ ہندوستان میں چھاتی اور سروائیکل کینسر خواتین میں سب سے زیادہ عام ہے، جبکہ مردوں کو پھیپھڑوں، منہ اور پروسٹیٹ کینسر کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ملک میں وقت پرکینسر کا پتہ لگانے کی شرح کافی کم ہے۔ اکثر مریضوں میں کینسر کا پتہ صرف آخری مراحل میں ہوتا ہے جہاں اس مرض کا علاج بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں دنیا بھر میں کینسر کے 20 ملین (دو کروڑ) نئے کیسز سامنے آئیں تھے۔ جس میں 97 لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ محققین کا اندازہ ہے کہ 2050 تک ہر سال کینسر کے مریضوں کی تعداد 35 ملین (3.5 کروڑ) تک پہنچ سکتی ہے۔ ہندوستان میں بھی اس سنگین اور مہلک بیماری کے کیسز میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ ٹیکنالوجی اور ادویات میں ایجادات کی وجہ سے کینسر اب لاعلاج مرض نہیں رہا، پھر بھی طبی اخراجات کی وجہ سے اس کا علاج عام لوگوں تک پہنچنا مشکل ہے۔ دی لانسیٹ ریجنل ہیلتھ ساؤتھ ایسٹ ایشیا جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، بھارت میں 2020 میں کینسر کے تقریباً 12 لاکھ نئے کیسز اور 9.3 لاکھ اموات ریکارڈ کی گئیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اس دہائی کے آخر تک ملک میں کینسر کے کیسز میں 12 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
اگر جموں و کشمیر کی بات کی جائے تو پچھلے چار سال میں (2019-2023) جموں و کشمیر میں کینسر کے تقریباً 51000 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ مرکزی وزارت صحت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں 2019 میں 12396 کیسز، 2020 میں 12726 کیسز، 2021 میں 13060 کیسز، 2022 میں 13,395 کیسز اور 2023 میں تقریباً 13744 کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار واضح طور پر ہر سال کینسر کے متاثرین کی تعداد میں اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس اضافے کے ساتھ بہت سی وجوہات وابستہ ہیں جیسے تمباکو کا استعمال، شراب نوشی اور دیگر منشیات کا زیادہ استعمال، موٹاپا، طرز زندگی بہت سے ماحولیاتی عوامل۔
میں نے خود اپنے خاندان میں کینسر کی وجہ سے 3 اموات دیکھی ہیں۔ اسی طرح کئی اور لوگ اپنے پیاروں پر کینسر کی وجہ سے گواہیاں دیتے ہیں۔یہاں سوال یہ ہے کہ اس بیماری میں اتنا اضافہ کیوںہورہا ہے اور ہمارا طبی نظام اس کے خلاف کتنی پیش رفت کرتا ہے؟ کیا اس بیماری سے مؤثر طریقے سے لڑنے کے لیے طبی نظام موثر ہے یا ہمیں مزید بہتری کی ضرورت ہے؟’ہندوستان میں کینسر کے بوجھ‘ پر انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق، سات کینسر بیماری کے کل بوجھ کا 40 فیصد سے زیادہ ہیں: پھیپھڑے (10.6 فیصد)، چھاتی (10.5 فیصد)، غذائی نالی (5.8 فیصد)، منہ (5.7 فیصد)، معدہ (5.2 فیصد)، جگر (4.6 فیصد) اور گریوا بچہ دانی (4.3 فیصد)۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 2020 سے 2023 کے درمیان کینسر کے کیسز اور اس سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے نیشنل کینسر رجسٹری پروگرام کے مطابق، 2020 میں مختلف ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ذریعہ ہندوستان میں کینسر کے واقعات کا تخمینہ 13,92,179 تھاجو 2021 میں بڑھ کر 14,26,447 ہو گیا۔ملک میں کینسر سے ہونے والی اموات کا تخمینہ 2020 میں 7,70,230 تھا۔جو 2021 میں بڑھ کر 7,89,202 اور 2022 میں 8,08,558 ہو گیا۔ پونچھ کے ایک مقامی صحافی اور سماجی کارکن بشارت حسین کا کہنا ہےکہ جموں و کشمیر کی موجودہ یو ٹی سرکارکو چاہئے کہ ایسے افراد کی مدد کے لیے مثبت اقدامات کریںجن سے مالی طور پر کمزور کینسرمریضوں کا علاج و معالجہ ہوسکے۔ جس کے لئے ضروری ہےکہ یہاں قائم صحت مراکز کو توسیع دیں،جہاں کینسر میں مبتلا مریضوں کا علاج و معالجہ ہورہا ہے ،ساتھ اُن پروگراموں کو بڑھاوا دیا جائے جن کے تحت کینسرمریضوں کو علاج کے لیے سبسڈی یا مالی امداد فراہم ہورہی ہے۔جن میں کم قیمت والی دوائیں، کیموتھراپی، ریڈی ایشن تھراپی، اور سرجری قابل ذکر ہیں۔ یہ پروگرام تمام شہریوں کے لیے قابلِ رسائی ہونے چاہئیں،۔صحت عامہ کے نظام کے اندر کینسر کے علاج کے لئے خصوصی مراکز تیار کرنے اور ان کو برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے جو ضرورت مندوں کو مفت یا کم لاگت کی خدمات پیش کرسکیں۔اس کے ساتھ ہی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ ایسے امدادی پروگرام قائم کرنے کے لیے تعاون کیا جانا چاہئے جو مناسب مالی وسائل کے بغیر افراد کو مفت یا رعایتی ادویات فراہم کریں۔ کینسر کے مریضوں اور ان کے خاندانوں کے لیے ایسے پروگراموں کی سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے جن سے خاندانوں کو ان ممالک میں علاج کے اختیارات تلاش کرنے میں مدد ملے گی جہاں صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات زیادہ سستے ہوں۔جبکہ کینسر کی جلد تشخیص اور روک تھام کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے صحت عامہ کی مہموں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ فارماسیوٹیکل کمپنیاں بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ وہ کینسر کی دوائیوں کی قیمت کم کر انھیں ضرورت مندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ قابل رسائی بناسکتی ہیں۔ غیر سرکاری امدادی تنظیمیں اور غیر منفعتی تنظیمیں باہمی شراکت داری کے تحت کینسر میں مبتلا مریضوں کی امداد پر اپنی توجہ مرکوز کرکےاُنہیں فائیدہ پہنچا سکتی ہیںاوراس طرح اس بیماری پر قابوپانے کے لئےکچھ آسانی پیدا کرسکتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کینسر میں مبتلا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خطرات کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔(چرخہ فیچرس)