مختار احمد قریشی
آج کے دور میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا گھریلو کام کی ذمہ داری صرف عورت کی ہے۔ اس کا جواب روایتی سوچ کے مطابق تو شاید ہاں میں دیا جا سکتا ہے، مگر جدید سماجی رویوں اور انصاف پسندی کی روشنی میں اس کا جواب نہیں میں دیا جا رہا ہے۔ گھر کو سنبھالنا اور اس کے معمولات کو چلانا ایک پیچیدہ کام ہے، جس میں ہر فرد کی شرکت ضروری ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔
روایتی نقطۂ نظر :
برصغیر اور دنیا کے بہت سے معاشروں میں عورت کو گھریلو کاموں کا مرکز تصور کیا جاتا رہا ہے۔ صدیوں سے یہ مانا گیا کہ عورت کا کام گھر سنبھالنا، بچوں کی پرورش کرنا اور کھانے پکانے جیسے امور کو انجام دینا ہے۔ معاشرتی طور پر مرد کا کردار عمومی طور پر مالی طور پر گھر کو سہارا دینا رہا ہے۔ اس تقسیم کی بنیاد معاشرتی رسم و رواج اور ثقافتی رویوں پر رکھی گئی ہے، جنہوں نے یہ اصول وضع کیے کہ عورت کو صرف گھریلو کاموں تک محدود رکھا جائے اور اسے اس کے کردار کے علاوہ کوئی اور موقع نہ دیا جائے۔
جدید نقطۂ نظر اور انصاف پر مبنی سماج :
عصر حاضر میں عورتوں نے ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے ساتھ کام کیا ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ہر میدان میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل گھریلو ذمہ داریوں کو بھی یکطرفہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ جدید نقطۂ نظر کے مطابق، گھر کا نظام اور ذمہ داریاں گھر کے ہر فرد پر برابر کی لاگو ہوتی ہیں۔ مرد اور عورت دونوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے کاموں میں برابر کی شرکت کریں۔
عورت کے کردار کو محدود کر کے اسے گھریلو کاموں تک محدود رکھنا اس کی صلاحیتوں کی توہین کے مترادف ہے۔ آج کی عورت معاشرتی زندگی میں بھی حصہ لے رہی ہے اور اپنی محنت و قابلیت سے ملک کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس لیے گھریلو کام کی تمام ذمہ داریاں صرف عورت پر ڈالنا نہ تو انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ برابری کی حیثیت میں اس کا حق ادا کرتا ہے۔
گھریلو ذمہ داریوں میں برابری کا تصور :
خاندان ایک ایسی اکائی ہے جس میں ہر فرد کی شراکت ضروری ہوتی ہے۔ اگر مرد اور عورت دونوں گھر کے کاموں میں شرکت کریں تو نہ صرف کاموں کا بوجھ برابر تقسیم ہو گا بلکہ گھر کا ماحول بھی مثبت انداز میں بہتر ہوگا۔ کاموں کو بانٹنے کا یہ انداز نہ صرف عورت کی زندگی میں آسانی لاتا ہے بلکہ مرد کو بھی احساس دلاتا ہے کہ گھریلو کام کرنا کوئی حقیر کام نہیں بلکہ ایک ضروری اور اہم فریضہ ہے۔
عورت پر گھر کی ذمہ داریاں ڈال کر اسے اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ مقاصد کو پورا کرنے کے موقع سے محروم رکھنا مناسب نہیں۔ اگر مرد حضرات بھی گھریلو کاموں میں شریک ہوں تو وہ عورت کی زندگی کو آسان بناتے ہیں اور خود بھی ایک بہتر خاندان اور معاشرہ تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
مذہبی اور اخلاقی تعلیمات :
اسلام میں مرد و عورت کے درمیان انصاف اور برابری کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے کاموں میں حصہ لے کر اس بات کی مثال قائم کی کہ گھریلو ذمہ داریاں صرف عورت پر نہیں ڈالنی چاہئیں۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ عورت کو ہی گھریلو کاموں کا ذمہ دار ہونا چاہیے، بلکہ ان معاملات کو محبت اور ہم آہنگی سے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
گھریلو ذمہ داریوں میں تبدیلی کی ضرورت :
آج کے تیز رفتار اور جدید دور میں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ گھریلو کاموں کی ذمہ داری صرف عورت پر ڈالنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اس سے معاشرتی رویوں میں بھی ایک عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے اور مرد و عورت دونوں کو برابری کی حیثیت حاصل ہو، تو ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ گھر کی ذمہ داریاں بانٹنے سے نہ صرف خاندان مضبوط ہوتا ہے بلکہ بچوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بچوں کے لیے مثبت اثرات :
جب بچے یہ دیکھتے ہیں کہ والدین دونوں گھر کے کاموں میں برابری سے حصہ لے رہے ہیں، تو ان پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ برابری اور شراکت کے اصولوں کو سیکھتے ہیں اور بڑے ہو کر اپنے گھرانے میں بھی اسی طرزِ عمل کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے بچے بالغ زندگی میں زیادہ متوازن اور مساوات پسند سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔
جدید معاشی حالات کا تقاضا :
آج کے جدید دور میں معاشی دباؤ کی وجہ سے زیادہ تر خاندانوں میں مرد و عورت دونوں کو کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر عورت گھر کے کاموں اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی رہے تو اس کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر دونوں شریکِ حیات گھریلو کاموں کو مل کر انجام دیں تو وہ ایک دوسرے کے معاون بن سکتے ہیں اور ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔
اس کے آگے، ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ جب گھر کے کاموں میں برابری کا اصول اپنایا جاتا ہے تو یہ نہ صرف والدین کے تعلقات کو مضبوط بناتا ہے بلکہ ان کی ذہنی اور جذباتی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ رویہ، محبت اور تعاون کی فضا کو جنم دیتا ہے، جس سے میاں بیوی کے درمیان اعتماد بڑھتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ان کے درمیان غلط فہمیاں کم ہوتی ہیں، اور وہ ایک دوسرے کی ضروریات اور احساسات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ پاتے ہیں۔
عورت کی خود مختاری اور خود اعتمادی :
گھریلو کاموں میں مرد کا شامل ہونا عورت کی خود مختاری اور خود اعتمادی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ جب مرد گھر کے کاموں میں شرکت کرتے ہیں تو اس سے عورت کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اس کی محنت کی قدر کی جا رہی ہے اور اسے برابری کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ رویہ معاشرے میں عورت کے مقام اور حیثیت کو مضبوط کرتا ہے، اور اسے اپنے خوابوں اور مقاصد کو پورا کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
نئی نسل کے لیے بہترین مثال :
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ جب مرد اور عورت گھر کے کاموں میں مل کر حصہ لیتے ہیں، تو وہ اپنی اولاد کے لیے ایک بہترین مثال قائم کرتے ہیں۔ اس عمل سے بچے یہ سیکھتے ہیں کہ برابری اور انصاف ایک خوشحال اور کامیاب زندگی کے بنیادی اصول ہیں۔ انہیں یہ شعور ملتا ہے کہ کاموں کی تقسیم جنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ قابلیت، وقت اور ذمہ داری کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ یوں، وہ بڑے ہو کر اپنے شریکِ حیات کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے اور اپنے گھریلو فرائض کو انصاف اور برابری سے نبھانے کے قابل ہوتے ہیں۔
صنفی مساوات کی راہ میں حائل رکاوٹیں :
تاہم، معاشرتی روایات اور قدامت پسند رویے اب بھی گھریلو کاموں میں صنفی مساوات کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ تصور قبول کرنا مشکل ہے کہ مرد بھی گھر کے کاموں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے، مذہبی رہنما، اور معاشرتی تنظیمیں اپنی کوششیں تیز کریں اور ایسے پروگرامز اور مہمات چلائیں جو لوگوں کو اس بات کا شعور دیں کہ گھریلو ذمہ داریاں سب پر عائد ہوتی ہیں اور یہ کسی ایک صنف کی مخصوص ذمہ داری نہیں ہے۔
گھریلو کاموں کو صرف عورت کی ذمہ داری سمجھنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی ایک رکاوٹ ہے۔ اگر ہم ایک بہتر اور ترقی یافتہ معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ گھریلو کاموں میں برابری اور شراکت کا اصول اپنانا نہایت اہم ہے۔ مرد اور عورت کو مل کر گھر کے کاموں کو بانٹنا چاہیے، جس سے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی بہتر ہوگی بلکہ ان کا تعلق بھی مضبوط ہوگا اور نئی نسل کے لیے ایک روشن مثال قائم ہوگی۔
امید ہے کہ آنے والے وقت میں ہمارے معاشرتی رویے مزید تبدیل ہوں گے اور گھریلو ذمہ داریوں میں صنفی مساوات کو اپنانا ایک معمول بن جائے گا۔ اس طرح ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکیں گے جہاں انصاف، محبت، اور احترام کی فضا قائم ہو، اور جہاں مرد اور عورت مل کر ایک خوشحال اور مضبوط خاندان کی تعمیر کر سکیں۔
(کالم نگار ایک مصنف ہیں اور پیشہ سے ایک استدعا ہیں۔ ان کا،تعلق بونیار بارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001