ندائے حق
اسد مرزا
جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ تنازعے کے بعد حالات ایک بار پھر کشیدہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام پر حملے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جب کہ تہران نے یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔اس دوران دونوں طرف سے جنگ کی دھمکیاں اور جوابی بیانات آرہے ہیں،گزشتہ ہفتے ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قریبی فوجی افسر نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اپنی اقتصادی اور فوجی حدود کی وجہ سے ایران پر حملہ کرنے سے قاصر ہے۔دریں اثنا،ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سکریٹری علی لاریجانی نے لبنان کے المیادین چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے ایران کو شکست نہیں دے سکتا اور حقیقی حل کے لیے مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو ہم مثبت جواب دیں گے لیکن اگر مذاکرات جنگ کی تیاری کا بہانہ ہیں تو یہ ہمارے لیے بے سود ہے۔ لاریجانی کا بیان ایک طرف سفارتی حل کا امکان ظاہر کرتا ہے تو دوسری طرف اس سے امریکہ کے ارادوں پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔
دوسری جانب فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے اگست کے آخر تک جوہری مذاکرات دوبارہ شروع نہ کیے اور ٹھوس نتائج برآمد نہ ہوئے تو اقوامِ متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کی جا سکتی ہیں۔ جون میں اسرائیل کی طرف سے شروع کیے گئے فوجی حملوں اور نویں دن تین ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی بمباری کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام ختم ہو گیا ہے۔ تاہم ایران نے بارہا کہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کا جوہری بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔لیکن حقیقت میں اس وقت ایٹمی مذاکرات کے تعطل اور فوجی کشیدگی کے خدشات کے درمیان دونوں فریق جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ایران نے اپنی فوجی تیاریوں کو مضبوط کیا ہے،جب کہ اسرائیل اور امریکہ مسلسل فوجی کارروائی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تاہم امریکہ اور اس کے اتحادی توانائی کے بحران اور عالمی معاشی دباؤ کے پیش نظر فوجی کارروائی سے گریز کرسکتے ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بغائی نے پیر(۱۸؍اگست) کے روز تہران میں ایک پریس کانفرنس میں خبردار کیا کہ اسرائیل کی توسیع پسندی کو اگر روکا نہ گیا تو مشرق وسطیٰ کے خطے کو نہ ختم ہونے والی جنگوں میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔بغائی نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے نام نہاد “عظیم تر اسرائیل” کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں حالیہ دعوؤں پر تنقید کی، جسے نیتن یاہو نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور پڑوسی عرب ریاستوں کے کچھ حصوں کو شامل کرنے کے طور پر بیان کیا ہے۔بغائی نے مزید کہا کہ اس ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے خیال نے اسرائیل کی تسلط پسند انہ اور توسیع پسندانہ فطرت کو واضح کر دیا ہے۔ پریس کانفرنس میں بغائی نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے اس ماہ کے شروع میں دورہ ایران کا مقصد جون میں ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر اسرائیل اور امریکی حملوں کے بعد ایران-IAEA کے تعاملات کے لیے رہنما اصول قائم کرنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں ایران اور اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے درمیان مزید مذاکرات ہونے والے ہیں۔
دریں اثنا، ایرانی مسلح افواج کے جنرل سٹاف، جو کہ ایران کا اعلی ترین فوجی ادارہ ہے، جو کہ ایرانی فوج اور IRGC دونوں کو کنٹرول کرتا ہے، نے امریکہ اور صیہونی حکومت کو اسلامی جمہوریہ کے خلاف کسی بھی نئی جارحیت کے خلاف سخت تنبیہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اس طرح کی حماقت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا جو جون میں 12 روزہ جارحیت کے مقابلے میں زیادہ سخت ہوگا۔یہ بیان اتوار (17 اگست) کو ایران کے سپریم لیڈر کے اعلیٰ فوجی مشیر کے اس انتباہ کے بعد دیا گیا تھا کہ اسرائیل یا امریکہ کے ساتھ ایک اور جنگ کا امکان ابھی بھی موجود ہے۔پاسداران انقلاب (IRGC) کے سینیئر جنرل یحییٰ رحیم صفوی نے کہا، ’’ہم جنگ بندی میں نہیں ہیں؛ ہم جنگ کے مرحلے میں ہیں۔ ہمارے اور امریکہ یا اسرائیل کے درمیان کوئی پروٹوکول، ضابطہ یا معاہدہ نہیں لکھا گیا۔‘‘ صفوی نے مزید کہا:’’میرے خیال میں ایک اور جنگ ہو سکتی ہے، اور اس کے بعد شاید مزید جنگیں نہ ہوں۔‘‘صفوی کا یہ تبصرہ دونوں طرف کے فوجی رہنماؤں کے جنگی تبصروں کے سلسلے میں تازہ ترین ہے، جس میں اسرائیل کے آرمی چیف نے مزید حملوں کے لیے تیاری کا عزم ظاہر کیا ہے اور ایران کے جنرل اسٹاف نے مستقبل میں امریکہ یا اسرائیل کے کسی بھی حملے کے لیے “بہت زیادہ سخت ردعمل” کا انتباہ دیا۔
مشرق وسطیٰ کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ کشیدگی بڑھنے کے بعد اگست کے آخر تک ایک مکمل جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ کوئنسی انسٹی ٹیوٹ فار ریسپانسبل سٹیٹ کرافٹ کے ایگزیکٹیو نائب صدر ٹریتا پارسی کے بقول، اسرائیل اس طرح کے فوجی منصوبے کو امریکہ کی مکمل حمایت کے بغیر برقرار نہیں رکھ سکے گا۔اس کے ساتھ ہی اسرائیل اور ایران دونوں اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے کو چھپا کر رکھتے ہیں، پارسی نے کہا کہ مغربی انٹیلی جنس کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے پاس “اب بھی 1,600میزائل ہیں جو اسرائیل تک پہنچ سکتے ہیں۔”دوسری طرف اسرائیل کوبم شکن انٹرسیپٹرس کی کمی ہے۔ پارسی نے ایکسپریس یو ایس کو بتایا کہ “صحیح تعداد معلوم نہیں ہے، لیکن بہت کچھ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل جنگ کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا تھا (جب تک کہ امریکہ اس میں مکمل طور پر داخل نہیں ہوتا)۔‘‘
پارسی نے مزید کہا کہ ایران پہلے ہی اس کے خلاف ایک اور اسرائیلی حملے کی توقع کر رہا ہے اورتیاریاں کر رہا ہے۔ پہلی 12 روزہ جنگ میں، انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے ملک نے “طویل کھیل کھیلا، اپنے میزائل حملوں کو تیز کیا کیونکہ اسے ایک طویل تنازعہ کی توقع تھی۔”اس کا مطلب یہ ہے کہ دو چیزیں – پہلی یہ کہ ایران کے پاس ہتھیاروں کی جنگ لڑنے کے لیے کافی میزائل موجود ہیں، اور دوسری یہ کہ دوسری جنگ کی صورت میں وہ اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر سکتا ہے۔پارسی نے مزید لکھا،’’اگلے دور میں، تاہم، ایران کے شروع سے ہی فیصلہ کن حملہ کرنے کا امکان ہے، جس کا مقصد اس خیال کو ختم کرنا ہے کہ اس پر اسرائیل اپنا فوجی تسلط قائم کر سکتا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں آنے والی جنگ ممکنہ طور پر پہلی جنگ سے کہیں زیادہ خونی ہوگی۔ اور یہ امریکہ کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے، انہوں نے کہا، کیا ملک کو تنازع میں شامل ہونا چاہیے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو تجزیہ کاروں کی یہ رائے غلط بھی ثابت ہوسکتی ہے کیوںکہ اس وقت اسرائیل کا اولین مقصد غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانا ہے، جس کے خلاف کوئی بھی ملک اپنی آواز نہیں اٹھا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی اپنی اندرونی معاشی اور سیاسی پریشانیوں کی وجہ سے ٹرمپ شاید ایسی کسی جنگ میں شامل نہ ہوں جو کہ بڑے پیمانے پر لمبے عرصے تک جاری رہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)