قیصر محمود عراقی
اب جہیز کو ایک ایسی بنیادی ضرورت سمجھا جاتا ہے کہ اس کے بغیر شادی ادھوری ہے۔ موجودہ دور میں شادی کی رسمیں بعد میں منعقد ہوتی ہیں جہیز ان کے اہتمام سے پہلے ہی لڑکی کے سسرال پہنچا دیا جاتا ہے۔ جہیز میں ضروریات زندگی کی اشیا ء کے علاوہ وہ تمام چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں جن کا مطالبہ لڑکے والے کرتے ہیں۔ جہیز کا موضوع ہے تو پرانا لیکن حیرت انگیز طور پر یہ مسئلہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی جڑیں مضبوط کرتا جارہا اور زیادہ مسئلے کی بات یہ ہے کہ جہیز کا لین دین ان گھرانوں میں زیادہ اہم ہے جہاں آمدنی خود ایک مسئلہ ہے ،جبکہ سسرال میں لڑکی کی خوشحالی کی ضمانت جہیز کی شرط پوری ہونے پرمنحصر ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کیلئے جہیز دینے پر مجبور ہوجاتے ہیںاور بھاری بھرکم سامان دیکر اپنی بیٹیوں کی خوشیاں خریدتے ہیںاور شادی کے بعد بھی وقتاًفوقتاًاشیاء کی لین دین کا مطالبہ چلتا رہتا ہے۔ اسی لئے اکثر گھرانوں میں بیٹیاں بن بیاہی رہ جاتی ہیں، ان کے والدین نہ صرف پریشان بلکہ مجبور بھی نظر آتے ہیں کیونکہ جہیز نہ ہونے پر وہ اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کرپاتے۔ یوں تو جہیز کا مطالبہ ایک جرم تصورکیا جاتا ہے
اور ایک مسلم معاشرے میں اس تصور کی کوئی گنجائش بھی نہیں، کیونکہ اسلام نے عورت کو بلند مقام عطا کیا ہے، اسے عزت واحترام بخشا ہے۔ ایک بیٹی کی حیثیت سے وہ رحمت سمجھی جاتی ہے، ایک ماں کی حیثیت سے وہ تعلیم وتربیت کا گہوارہ ہے اور ایک بیوی کی حیثیت سے وہ وفا کا مجسمہ ہے۔ یوں اس ہستی کو دولت کے ترازوں میں تولنا کسی بھی طرح اسلامی معاشرے کے مطابق نہیں ہے لیکن افسوس کہ اب یہاں کوئی شادی جہیز کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔
جہیز ایک شریفانہ ڈاکہ ہے جو لڑکے والے بڑے شریفانہ اندازمیں اپنی تمام خواہشات کو لڑکی والوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور ان سے وہ تمام چیزیں پوری کرنے کی طلب کرتے ہیںاور انہیں نہ پوری کرنے پر وہ شادی توڑ دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والے ہر طرح سے مجبور ہوجاتے ہیں اور اس کے باوجود ان کو جہیز دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ مہذب دنیا کے کسی بھی معاشرے میں جہیز کی حوصلہ افزائی کا تصور ممکن نہیں لیکن ہمارے یہاں جہیز نہ دینے کی صورت میں چولہے بھی پھٹ جاتے ہیں اور جہیز نہ دینے کی وجہ سے دلہن کو جلا بھی دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات پڑھ کرلگتا ہے کہ ہمارا مہذب دنیا سے دور دور تک واسطہ بھی نہیں ہے، لڑکیاں کو جہاں بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہاں ایک مصیبت جہیز بھی ہے۔ آج بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ایسے اصولوں کی بنیاد پر کھڑا ہے جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں ہے، افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے یہاں دلہن کے ساتھ قیمتی سامان کا تقاضا کیا جاتا ہے، جو شخص بیٹی جیسے دل کو ٹکڑا دے رہا ہے کیا اس کا پہلے ہی یہ احسان کم ہے ۔ ایک محتاط اندازکے مطابق چالیس فیصد طلاق میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے جبکہ سسرال کی طر ف سے تشددکا نشانہ بننے والی نوے فیصد سے زائد خواتین ظلم اس لئے سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جن کی عمر پچیس برس کی حد سے تجاوز کی ہے اور شادی میں رکاوٹ محض جہیز کی ہے۔ مہنگائی کے اس زمانے میں کوئی بھی شخص اپنی بیٹی کی شادی کا تصور کرتے وقت کم از یہ تو ضرور سوچتا ہے کہ اس فرض کی ادائیگی کیلئے اس کے پاس لاکھوں روپے ہونے چاہئے۔ آج کے دور میں جب دو وقت کی روٹی کما نا مشکل ہے ، کتنے لوگ ہونگے جن کے پاس لاکھوں روپے ہیں ؟ مذہب اسلام نے سادگی سے نکاح کرنے پر زور دیا ہے اور جہیز میں ان ہی چیزوں کو قرار دیا جو کہ انسانی زندگی میں اہمیت رکھتی ہیں تاکہ بھاری بھرکم سامان اور قیمتی زیور کو اگر ایک مسلمان حضرت محمدؐ کے بتاتے ہوئے طریقوں کے مطابق جہیز کا اہتمام کرے تو انہیں جہیز کا اصل مطلب سمجھ میں آجائیگا۔ لیکن آج کل ہم لوگ اسلام کو بھی بھول چکے ہیں اور آپؐ کے بتائے ہوئے طریقوں کو بھی بھلا چکے ہیں۔بہر حال جہیز دراصل ہمارے معاشرے کی بیمار سوچ کی عکاس ہے، ہمارے معاشرے میں والدین نے بیٹیوں کو جہیز دینا اپنا فرض بنالیا ہے جوکہ والدین بیٹی کی پیدائش سے ہی ان کے جہیز جوڑنا شروع کردیتے ہیں، یعنی وہ اس معاشرتی برائی کو اپنا اخلاقی فرض بنالیتے ہیں، جہیز کی صورت میں انہیں اس حوالے سے تسلی ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کو سسرال میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ لیکن ایسے والدین کی وجہ سے معاشرے میں وہ لڑکیاں پریشانی میں مبتلا رہتی ہیں جن کے والدین انہیں کچھ بھی نہیں دے پاتے ۔ موجودہ صورتحال دیکھی جائے تو جہیز کی اشیاء میں نہ صرف تبدیلی آئی ہے بلکہ اس میں بے حد اضافہ بھی ہوگیا ہےاور معاشرہ اس رسم کو ختم کرنے پر تیار ہی نہیں ہے۔
رابطہ۔6291697668