یہ بھاجپا بھی بڑی مست مست چیز ہے، اس کے پیدل سینا دستے میں شامل سادھو سادھویاں کبھی کنول کے پھول برساتے ہیں ، کبھی آر ایس ایس کے پتھربرساتے ہیں۔ اب دیکھئے نا جن سنگھ سے یہ سنتے سنتے کوئلے جیسے بال برف جیسے چٹے سفید ہوئے،کان سنتے سنتے پک گئے ،دماغ کی رگیں سوجھ گئیں کہ دفعہ تین سو ستر کو دفع کرو جنت ِکشمیر جیب میں ۔ اب پتہ نہیں کہ شیاما پرساد مکھر جی کی اولادوں کاہاضمہ خراب ہے ، ہوا کا رُخ بدل گیا، موسم بدلایا حقیقت کی دیوی کے درشن ہوئے کہ گجرات دنگوں کا ہیرو، انڈیا کابے تاج پادشاہ امت شا کیا شنکھ بجاگیا ، بولا صرف دفعہ ۳۷۰ ہٹانا ہی کشمیر کا حل نہیں اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔اس منتر سے پیرانِ بجبہاڑہ کے پیرے تلے زمین کھسک گئی نہ ایجنڈا آف الائنس کے تعویذ میں ہلکی سی بھی ہلچل پیدا ہوئی۔ ان کے لئے یہی نشہ وخمار کافی ہے کہ سنگھ پریوار کے صدقے سیکرٹریٹ تاجہانگیر چوک مفتیوں،اندرابیوں،بخاریوں کا اقتدارہے۔ بڑے وژن والے کچن کیبنٹ میں بانوئے کشمیر، فلمی مفتی اور ماماجی نذر و نیاز کی مفت کی روٹیاں یہ کہہ کر توڑتے ہیں چلو عام خام کو ٹرخانے کا ایک موقع مل ہی گیا کہ بھلے ہی کرسی جائے ہم ۳۷۰ کو آنچ نہیں دیں گے ۔رام مادھو جب بات کرتاہے تو سنا ہے قلم دوات والے شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں بلکہ ان کی بولتی بندہو جاتی ہے کیونکہ وہ اسی تعویذملاپِ قطبین کو نکارتا ہے جس کے بارے میں حسیب بے قابو نے بڑھ چڑھ کر بولا تھا کہ اب تو مفتی آف بیجبہاڑہ کا فتویٰ نیشنلائز ہوگیا کیونکہ بھارتی نیشنل پارٹی نے بھی اسے تسلیم کرلیا۔ جی ایس ٹی میٹنگ کے بعد تو سیاسی حساب دان پھولے نہ سمائے ، اعلان فرمایا کہ کنگال کشمیر وشال بھارت کی معاشی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ اب ملک کشمیر کے تمام مسئلے بطفیل جٹلے حل ہو ں گے۔ یہاں کتنے لوگ بھارت کی سیاسی تاریخ میں دفن ہوگئے گنتی کرنا مشکل ہے۔شاید اسی لئے جب تعویذ قلم کنول کے بارے میں اناپ شناپ سامنے آئے تو دوات والے فوراً بجبہاڑی روشنائی نکال کر اپنا فتویٰ قلم بند کرتے ہیں ۔ اس کی ذمہ داری پیر نعیم آف بانڈی پورہ کو یہ کہہ کر سپرد کرتے ہیں جتنا جی چاہے جھوٹ بولنا لیکن ڈولتی کرسی کی لرزتی ٹانگوں میں تعویذاستحکام باندھو، آستانِ دہلوی پر منتیں چڑھاؤ مگراقتدار کا پرشاد ہمیں کھلاتے رہنا۔کسے نہیں معلوم مادھو جی مودی مہاراج کا ایساپتلاہے جسے ملک کشمیر میں ڈرانے دھمکانے کے لئے میدان میں اُتارا جاتا ہے اور جب وہ دفعہ ۳۷۰ کی مٹی پلید کرتا ہے تو قلم والے اپنے آپ کو برہنہ محسوس کرتے ہیں۔بے چارے دفعہ ۳۷۰ کی عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ کوئی نیا کھیل نہیں ۔ ہل والے ہنڈو صاحب اسے’’ عزِ ہیند یزت فضہِ ہیند یزت ۳۷۰ ،۳۷۰‘‘ (عزی اور فضی کی عزت ۳۷۰، ۳۷۰ )کہہ کر نعرہ مستانۂ لگواتے تھے ۔جانے کیوں کسی دل جلے کسی منچلے نے اس نعرہ مستانہ کو نعرہ بیگانہ جان کر ہلکا سا تبدیل کر کے’’ بِٹُن یزت بِٹُن یزت‘‘(بِٹی کی عزت بِٹی کی عزت) مشہور کرادیا۔حالانکہ سیاسی حمام میں سب ننگے ہوتے ہیں پھر بھی جو دستاویز ستر پوشی کے لئے قلم دوات والے استعمال کرتے ہیں ،وہ بھی کئی جگہ تارتار ہوتادِکھتا ہے اور سیاسی اندرون کا لباس شہر شہر ،قریہ قریہ، گائوں گائوں چیتھڑے بن جاتا ہے۔ایسے میں سیاسی رانڈے ڈر ڈر کے راستہ چلتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر سیاسی زاغ وزغن اڑان نہ بھریں۔کسے نہیں معلوم کہ دفعہ ۳۷۰ تو پہلے بھی ہمارے پاس تھی پھر اہل سیاست نے ہوس اقتدار پورا کر نے اور لنگڑی کرسی پر براجمان رہنے کے لئے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے بیچ بازار بیچ دیا ۔بھلے اہل سیاست خود اس بازار میں نادار بن کر رہ گئے اور کچھ ہی برسوں میں ہمارے پاس اس کا پھٹا پرانا لنگوٹ بچ گیا ،جسے وہ ہر الیکشن کے وقت لوگوں کو دکھاتے ہیں،اسی کے نام سے انہیں بہلاتے پھسلاتے ہیں مگر مسلٔہ یہ ہے کہ نوجوان اب پھٹے لنگوٹ کو دیکھ کر ناک منہ پر رومال رکھ دیتے ہیں۔ یہ لنگوٹ سلطان کا لنگوٹ نہیں کہ اسے کسی سیاسی دنگل میں کام میں لایا جائے۔سچ تو یہ ہے اس لنگوٹ میں اتنے چھید ہوگئے ہیں کہ ان کا سیاسی خلیجِ بنگال صاف نظر آتا ہے۔
رات لمبی ہے اور تاریک بھی شب گزاری کا سامان کرو دوستو
جانے پھر کب یہ ملنا مقدر میں ہو اپنی اپنی کہانی کرو دوستو
مجھ کو معلوم ہے تم بھی میری طرح جان و دل کوئے کرسی میں ہار آئے ہو
اب یہ بازی نئے سر سے ممکن نہیں اپنا انجام خود سوچ لو دوستو
رام مادھو اینڈ کمپنی قلم دوات والوں کو ہی نہیں ممکت خداداد کو آئے دن ڈراتے دھمکاتے بلکہ آنکھیں وا کر کے دکھاتے ہیںاور جب آنکھوں کی بات چلے تو انہیں ملانے پر زور نہیں دیا جاتا۔اس کمپنی کے ڈاکٹر جیتندر سنگھ بھی آئو دیکھتے ہیں نہ تائو ،بس اپنا اخباری بنگولہ پھوڑ دیتے ہیں اور مملکت خداداد والوں کو ایسا سبق آموز جواب دینے کی گیڈربھبکی دیتے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں دی ہوگی۔اور ہم بیٹھے بیٹھے سوچتے ہیں کہ بھلا روز روز کا جواب بشمول سرجیکل اسٹرائیک کیوں پرانا ہوجاتا ہے اور سرحد پر تنائو چلتا ہے۔ہو نہ ہو اینڈ کمپنی کو جواب دینا نہیں آتا یا مملکت خداداد کو جواب سمجھ نہیں آتا ۔نہ جانے اس جواب میں انگریزی میں اردو آمیزش نہیں یا ہندی جواب میں سنسکرت آمیزش کچھ زیادہ ہے۔ہم تو اہل کشمیر ہیں ہند پاک سوالات و جوابات کی ٹیڑھی میڑھی زبان سے ڈرتے ہیں کہ انہیں تو بات سمجھ نہیں آتی لیکن ہمیں خمیازہ اٹھانا پڑتا ہے،یعنی جب جنگل میں دنگل مچ جاتی ہے تو پتلی گھاس کا بھس نکل آتا ہے۔اور ایسی شامت اہل کشمیر سالہا سال سے سہتے آئے ہیں۔ وہ تو آنکھ نہیں ملاتے، جینوا عالمی عدالت میں ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملاتے،اور ہم ہیں کہ دونوں ہاتھوں سے ہمارے چہرے پر چپت رسید ہوتی ہے، پھر یہ نہیں سمجھ آتا کہ ہم سیب کی مانند لال ہیں یا اوروں کے طمانچے سے اپنے گال سرخ ہیں۔کلبھوشن جادو عرف حسین مبارک پٹیل کی اصل کہانی اس مصافحہ سے انکار کی بھینٹ چڑھی جا رہی ہے۔ کسے نہیں معلوم یہ مندوبین ہاتھ ملاتے تو اس کا اہم فائدہ یہ ہوتا کہ کراچی اور دلی میں ڈینگو کا خطرہ کم ہوجاتا ہے ،کیوںکہ اب دونوں جگہوں کے مچھراور مچھندر سخت جان ہوگئے ہیں ۔ڈی ڈی ٹی اور گیس کا ان پر اثر نہیں ہوتا ،یا تو قوالوں کی تالیوں سے مرتے ہیں یا مخالف ممالک کے مندوبین کے ہاتھ ملانے سے۔
ہند پاک دھینگا مشتی اپنی جگہ لیکن اپنے ملک کشمیر میں بھی موسم بدلتے دیر نہیں لگتی۔کون نہیں جانتا یہاں موسمی تغیر ،سیاسی تبدیلی، معاشی ہیر پھیر اتنا جلدی جلدی ہوجاتا ہے کہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔کب سیاسی پیر عوام الناس کے حق میں دعائے خیر کے لئے ہاتھ اٹھائیں یا کب سیاسی دہقان اپنا ہل ان کی خدمت میں پیش کریں اس کا سیدھا راستہ کرسی کے بغل سے جاتا ہے۔ ابھی دھوپ سینکنے جو بیٹھے تو فضا میں سفید سفید گالے گرتے دِکھیں ۔ دماغ پر زور ڈالا تو پتہ چلا کہ مئی میں برف نہیں بلکہ روسی سفیدے سے نرم نرم گالے گر رہے ہیں۔فقط گرتے نہیں بلکہ عمومی طور زکام کا موجب بن جاتے ہیں۔حالانکہ ہم نے مینڈکی کا زکام سنا تھا لیکن اب پتہ چلا کہ ہمارے بزرگ کس قدر ذہین تھے ۔ اللہ جنت نصیب کرے ہمارے ان بڑے بزرگوں کو جو وقتاً فوقتاً ایسی افلاطونی باتیں گڑھ جاتے تھے جیسے دل کے لفافے پرمحبت کی ٹکٹ کی طرح چپک جاتے۔ امیرا کدل پر تانگے بان کا گھوڑا نہ چڑھ پاتا تو وہ اسے امریکی سازش جتاتا۔سفیدے کے گالوں سے پھیلنے والے زکام سے اشارہ ملتا ہے کہ اس میں روسی سازش شامل ہے ۔حالانکہ اس پر سوچتے ہوئے سابق قومی سلامتی مشیر بریجیش مشرا کی وہ بات جو اس نے اے ایس دلت کو بتائی تھی یاد آئی کہ کشمیر میں سفیدوں کے بغیر کوئی چیز سیدھی نہیں۔شاید مشرا جی نے اپریل مئی میں کشمیر کا دورہ کیا تھا تو پتہ چلا کہ یہاں کے سفیدے روسی ہوں یا دیسی، بھلے ہی دِکھنے میں سیدھے ہیں مگر خصلتاً ٹیڑھے نہیں۔مانا کہ اہل کشمیر سفیدوں کے زکام میں مبتلا ہیں لیکن اہل سیاست اقتداری زُکام سے جوجھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق اس زکام کا علاج گورنر راج کی گاؤزبان و سبستان میں ڈھونڈتے ہیں ۔ اُدھرسیاسیوں کو طلبہ کا طوفان ِ طبلہ بازی آرام سے سونے نہیں دیتا۔مار پیٹ ،پیلٹ، تھانے کوتوالی، پاوا سے وہ ڈرتے نہیں، سیاسی تھپکیوں کا کتھک ناچ انہیں پسند نہیں، یہ منت سماجت بھی بے ناکام ہے بیٹا جی بیٹی جی ! ہم پر احسان کرو ، دو گھڑی سونے دو،عمر بھرتمہیں دعائیں دیں گے ،کم نمبروں سے بھی پاس کرائیں گے ۔ کوئی تعویذ گنڈا نہ چلا تو وادی کی سیر کے نام پر ٹرین سواری دی مگر سب چوپٹ الٹا پلٹ! اب گولڈن ٹیسٹ اور نوے فی صد حاضری کا حکم ِحاکم میدان میں اتاراہے، دیکھتے ہیں بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے ؎
اگرچہ امن کی باتوں کے پھول بکھرے ہیں
کوئی نہیں ہے جو ان سے بہلنے والا ہے
ایسے میں ہمیں بچپن یاد آیا کہ روٹھ جاتے تو گھڑ سواری کا مزہ لینے کو ملتا۔ اہل سیاست کا بس چلے تو نونہالوں کے سرپیر دبائیں بلکہ نمکین پانی سے ٹانگوں پر مساج کریں کہ خالی نمک سے زخموں پر مساج بے فائدہ رہا۔ ایک کسر باقی تھی وہ بھی نکل گئی ، سرینگر کی بیٹیاں نڈر دلیر بچیاں بھی پتھر اؤ کا مزہ لینے آئیں۔ایک دوشیزہ نے فٹ بال کک مارکر پتھر بال کا مزالیا کیونکہ کسی پولیس والے نے سرراہ بنت ِحوا کو گالیاں دینے کر مہنگی بہادری دکھائیتھی ؎
سب سے اچھا محکمہ ہے تعلیمات
تعطیلاتن تعطیلاتن تعطیلات
دے چکیں سنگ بازی میں طلبا کو مات
طالباتن طالباتن طالبات
جانے یہ کشمیر ی عام خام اپنی بچیوں کو کس چکی کاآٹا کھلاتے ہیں کہ پولیس کا ڈنڈاکیا ، پیلٹ کیا ، پاوا کیا مقابلہ مردانہ وار کرتی ہیں۔یقین نہ آئے تو میڈم جی کے ڈل کنارے جلسے میں صنف نازک کے غصہ گرمی دیکھو کہ منہ پر بیک زبان کہہ دیا ہمیں کسی اور کام کے لئے بلایا گیا مگر یہاں کچھ اور ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے نازک کلائیوں نے سب کچھ اُلٹ پلٹ دیا ،کرسیاں بے دست وپا کیں، شامیانے سجدے میں گرائے ، مائک کا گلا دبایا۔بارہ قلی تیرہ میٹ پرانی کہاوت ہے مگر صرف ملک ِکشمیر میں عین غین سچ بیٹھتی ہے۔یہاں کس کی کیا ذمہ داری ہے ، اس کا کبھی خلاصہ ہی نہ ہوا، اسی لئے جسے جو جی چاہے شوق سے کرلے۔ وزیر تعلیم طلبہ کی منت سماجت میں مصروف ہیں کہ میں اپنی بخارا کمپنی کا جوس پلائوں گا تم بس اپنا غصہ تھوک دو، لیکن جنوبی کشمیر میں خاکی وردی والے بسوں سے سفید وردی والوں کو اُتار اُتار کر ان کی خوب خبر لیتے ہیں ، یعنی مطلب فری سٹائل سیاست میں پتہ ہی نہیں کون کیا کہہ رہاہے اور کیا کہہ رہاہے ۔ سینا اپنی گاڑی کے بانٹ سے ایک کشمیری غلام کو عین پولنگ کے دن باندھنے پر کمانڈر صاحب کو شاباشی دیتے ہیں مگر دوسرے کماندان کہتے ہیں نہیں جی نظم شکنی پر کورٹ آف انکوائری چل رہی ہے۔ایک ٹولہ کہتا ہے تم ہمارا تاج ہو، دوسری ٹولی کہتی ہے اہل کشمیرپربم برساؤ ، نہیں تو وطن بدر کے چنئی کے پناہ گزیں بناؤ ؎
مقتل سجے ہیں پنکھ بھی زخمی ہیں اعظمی
سائے میں خنجروں کے پرندہ ہے زندگی
اور لاچارؔکشمیری یہ اوٹ پٹانگ دُکھی گیت گائے ۔ تنہا تنہا ہم سب آتش، ماتم نوحہ بین کا سرگم ، پتھر یلے سازوں میں گم ہیں ، آزادی کی ٹھمری بجائیں ، چھکری اپنی روز سنائیں،اَٹوٹ اَنگ پہ تھر کنے والو! ہمت ہے تو آگے آؤ، تین سوسترکا بینڈ بجاؤ، فوجی مبصرین کو سونہ وار سے ہٹاؤ، گھرواپسی ان کی کرجاؤ،تب مانیں کشمیر تمہارے، باپ کا ورثہ دادے کی جاگیر ، یہ نہ کیا توخاموشی سے، میرے گھر سے بھاگ کے جاؤ،ورنہ میرے پتھر کھاؤ،غصہ پاؤنفرت پاؤ، میںہوں پیاسا آزادی کا ،شمع خود ہوں خودپروانہ ، جل بھن کر میں خاک ہواہوں، میری گرمی توبہ توبہ،میری حرارت سے بچ جانا۔ کیا مودی مہاراج اور امت شا نے کے گوش ِ سماعت سے یہ نغمۂ دل فگار کبھی ٹکرایا؟
(رابط[email protected]/9419009169 )