کئی سال پہلے میری انگریزی کہانیوں پر مشتمل کتاب ’’دی ریجنگ سٹریم‘‘ (جلالی بہاؤ) شائع ہوئی۔ اس کا پیش لفظ ایک امریکی خاتون نقاد جیولی لارسن نے لکھا۔ میں یہاں اس پیش لفظ کے کچھ اقتباسات پیش کررہاہوں۔
جیولی لارسن لکھتی ہیں: زندگی ایک ڈانس کی طرح ہے۔ گود سے گور تک انسان جو سفر کرتا ہے وہ سفر ہی گویا ایک ڈانس کی طرح ہے۔ جب کہ ہم ابھی ماں کے ہی پیٹ میں ہوتے ہیں کہ اس کے بدن کی حرکتوں، اس کے دل کی دھڑکنوں اور اس کی آواز کے زیروبم کا میوزک اور ساز سنتے ہیں۔ وہ اسی گیت پر تھرک رہی ہوتی ہے جو اس کے اندر سے اُبھرتا اور بجتا رہتا ہے‘‘۔
جیولی کہتی ہے :جب ہم جنم لیتے ہیں تو زندگی کے آہنگ اور تال میں گھر جاتے ہیں کیونکہ ہمارا استقبال زندگی کی نئی آوازیں اور نئے نظارے کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس کے رد عمل میں اپنے ہاتھ پاؤں آگے پیچھے، اوپر نیچے کرکے پھیلاتے رہتے ہیں اور انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔ ہماری آوازیں اور چیخ وپکار ایک ایسا گیت مرتب کرتے ہیں جو ہمیں اگلے ڈانس کے لئے تیار کرتا ہے۔ آگے کی تلاش ہمیں ٹانگوں پر کھڑے ہونے کے لئے آمادہ کرتی ہے اور اس طرح ہم اپنی نحیف ٹانگوں پر ڈانس کے ابتدائی قدم چلانا سیکھ لیتے ہیں۔ جتنا ہم کوشش کرتے ہیں اتنے ہی ہمارے قدم مضبوط بننے لگتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ابتدائی کمزور قدم طاقت ور حرکتوں میں بدل جاتے ہیں۔ پھر ہم ان چیزوں کی تلاش و جستجو میں آگے بڑھتے رہتے ہیں جو ہمارے ارد گرد ہوتی ہیں۔ اس طرح ہماری صلاحیتوں اور اہلیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اس سفر میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے ماں باپ بھی ہم سے ہم قدم نہیں رہ پاتے، چنانچہ ہم اپنی راہ الگ بنالیتے ہیں اور اپنا ہی الگ گیت گالیتے ہیں اور اپنی ہی آوازوں پر تھرکتے ہیں۔ ایسا ہونا بھی چاہئے اور ہمارے ماں باپ کو ہمیں اپنا راستہ خود چن لینے کا موقع دینا چاہئے کیونکہ ہمارا ڈانس ہمارا ڈانس ہوتا ہے ،اُن کا نہیں۔ یہ بات ہماری ذات پر انحصار رکھتی ہے کہ ہم ایک بہترین ڈانسر بننے کی کوشش کریں‘‘۔
جیولی نے جن باتوں کا اظہار کیا ہے وہ اس نے اس کلچر کے تناطر میں اور اس ماحول و تربیت کے اعتبار سے کیا ہے جس میں اس کی پرورش ہوئی ہے اور جو امریکہ اور یورپ کا کلچر ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی تمثیلات بھی اسی پس منظر کے حساب سے ہوں گی۔ ضروری نہیں کہ میرے نزدیک بھی زندگی کا ایسا ہی نظریہ ہو اور میں بھی زندگی کو اسی مثال کے تناظر میں دیکھتا ہوگا یا سمجھتا ہوگا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ مجھے جیولی کی ہر بات سے اتفاق ہو۔ محض سنجیدہ قارئین کی دلچسپی کے لئے جیولی کے پیش لفظ کے یہ چند اقتباسات یہاں پیش کررہا ہوں۔ دوسری بات یہ کہ میں کوئی مولوی، دینی عالم یا مبلغ نہیں ہوں بلکہ ایک فکشن رائیٹر ہوں، اس لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ مجھے جیولی کی ہر بات سے اختلاف ہو۔ تاہم یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ الحمدللہ میں ایک مسلمان ہوں، اس لئے میری تخلیقی سوچ پر اسلامی جذبہ حاوی رہتا ہے اور مجھے اپنے دین سے محبت ہے، بے شک لغویات میں بھی مبتلا ہوتا ہوگا اور خطاؤں کا بھی ارتکاب ہوتا ہوگا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حفظاوامان میں رکھے۔
جیولی آگے لکھتی ہیں:جتنا ہم زندگی میں اگے بڑھتے رہتے ہیں ،اتنا ہی ہم پر ڈانس کی نئی نئی صورتیں اور طرز دریافت ہوتے ہیں۔ ہم مختلف گروپوں اور کمپنیوں کے ساتھ ڈانس کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ڈانس لیڈروں کی ہدایت سے اپنے قدم اور چلنے کا عمل زیادہ بہتر بنانا سیکھ لیتے ہیں اور ان ہی کا راہ اپنا کر اپنی قابلیت کو فروغ دے پاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمارے اندر اپنے ڈانس پارٹنر چن کر ڈیوٹس یعنی جوڑے بنالیتے ہیں اور پھر اپنی ساری عمر انہی چنے ساتھیوں کے ساتھ گزارتے ہیں، جب کہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک کے بعد ایک ساتھی بدلتے رہتے ہیں، پھر یا تو ساری عمر اپنے موافق کسی ساتھی کو نہیں پالیتے یا مختلف ساتھیوں کے ساتھ اپنےا نتخاب کا لطف لے لیتے ہیں۔ کچھ تو ہم میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو ساری عمر تنہا ڈانس کرتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ ایک نئی اور الگ روایت قائم کرلیتے ہیں۔ یہ ہمارے فن کار، رہبر واُستاد، دور اندیش اور فہم وفراست والے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے تجربات کی اساس پر ایک ایسی راہ بنالیتے ہیں، جو ہمیں نئی سچائیوں تک لے جاتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ان میں اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے زندگی میں زیادہ مصائب اور دشواریوں کا سامنا کیا ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ زیادہ سختیوں کا شکار ہوتے ہیں ،وہیں اعلیٰ منزلوں تک رسائی پانے کے اہل ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ تاریکی کے بغیر روشنی کا تصور نہیں، غم کے بغیر خوشی نہیںاور کوئی بلندی پستی کے بغیر نہیں ہوسکتی! ہم میں وہی لوگ عظیم ڈانسر ہوسکتے ہیں جو ہمیں ان بڑوں کا پتہ دے سکیں جن کی انہیں واقفیت ہو تاکہ ہم ان بلندیوں کا صحیح اور بھرپور لطف اٹھا پائیں جہاں وہ ہمیں لے جا سکیں۔ وہ واقعی تلوار کی اس دھار پر ڈانس کررہے ہوتے ہیں جو دو دنیاؤں کو تقسیم کرتی ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ تلوار کا جھکاؤ کس طرف ہے کیونکہ اگر یہ تلوار روشنی کی آڑ بن گئی تو تاریکی پھیلادے گی اور اگر یہ تاریکی کو کاٹ دیتی ہے تو حق کی روشنی دکھا سکتی ہے‘‘۔
بہرحال یہ اس امریکی نقاد کی باتیں ہیں جس میں اس نے ایک رائیٹر اور افسانہ نگار کا نقشہ کھنچنے کی کوشش کی ہے۔چلئے اب ہم نوآموز افسانہ نویسوں کے لئےفن ِ افسانہ نگاری کے بعض نکات پر بات کریں کہ افسانہ ہے کیا چیز اور یہ تخلیق سے تحریر کے مراحل تک کی آبلہ پائی کس طرح کر تا ہے۔یوں تو افسانہ لکھنے کے لئے کوئی خاص فارمولہ نہیں ہے جس کو معیار بناکر کسی تخلیق کے متعلق یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ بس اسی معیار کی تخلیق کو افسانہ کہا جاسکتا ہے۔ تاہم ایک کہانی کی جو خصوصیت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قاری کو اپنی طرف کچھ اس طرح متوجہ کرلے کہ وہ اس کے پڑھنے میں مگن ہوجائے۔ اگر ایک افسانہ قاری میں دلچسپی پیدا کردیتا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ افسانہ نگار نے ادبی دیانت کے ساتھ اپنا حق ادا کردیا ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اگر ایک افسانہ میں بھی وہی ادبی اصول مل جائیں جو عام طور ایک ناؤل میں پائے جاتے ہیں تو افسانہ کوالٹی کے اعتبار سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس میں ایک مرکزی خیال ہو، واقعات میں مناسب ترتیب و تسلسل ہو، مکالمہ ہو، ٹکراؤ ہو، تھیسز، اینٹی تھیسز اور سین تھیسز ہو یعنی دعویٰ، ضد دعویٰ اور نتیجہ ہو، کردار ہوں اور پھر اختتام ہو۔
کہانی کے ٹکراؤ کو پیدا کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ ٹکراؤ تواتر کے ساتھ اُبھرتا محسوس ہونا چاہئے اور مکالمے ساکن یا ’’پھلانگتے‘‘ہوئے نہ لگیں۔لکھنا ایک فن ہے اور فن اللہ کی عطا ہے۔ رائیٹر بننے کے لئے کوئی قید نہیں، کوئی بھی رائٹر ہوسکتا ہے، ایک مزدور بھی، تاہم کرافٹ یعنی لکھنے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ افسانہ لکھنا آسان کام نہیں ہے مگر اس کو سمجھنا لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ افسانے کی تہ تک پہنچنے کے لئے افسانہ نگار کی نفسیات کی گہرائیوں میں اترنا پڑتا ہے۔ اس کے لئے فہم وفراست کی ضرورت ہے۔ کبھی ایک افسانہ نگار خود بھی نہیں جانتا کہ میں نے جو لکھا تو کیا اور کیوں لکھا؟ مگر ایک صحیح اور زیرک نقاد افسانہ نگار کے منشا تک پہنچ جاتا ہے۔افسانہ بیانی، تشریحی، شاعرانہ اور ڈرامائی بھی ہوسکتا ہے۔ اس میں برجستہ ڈائیلاگ ہوسکتے ہیں اور تفصیل نہیں۔ کہانی ایک مقصد یا موضوع کے گرد گھومتی رہنی چاہئے، محض ایک خیال کافی نہیں۔ موضوع عام طور عالمی صداقتوں یا ابدی حقیقتوں پر انحصار کرتا ہے۔ مثال کے طور پرسچ کو زوال نہیں یا نفرت سے نفرت بڑھتی ہے، یا محبت سے دل جیتے جاتے ہیں وغیرہ۔ جب کہ خیال ایک کردار سے متعلق ہوتا ہے۔ خیال اور موضوع میں بڑا فرق ہے۔ خیال کہانی کے پلاٹ اور کردار سے اُبھرتا ہے جب کہ موضوع خیال کا وہ قسم ہے جو کہانی کے پس منظر میں ہوتا ہے۔افسانے میں قصے کا جیسا عنصر ملے تو اس میں لطف پیدا کردیتا ہےاور بعض حلقوں میں افسانے کے لئے ایسا ہونا ضروری بھی مانا جاتا ہے۔ افسانے کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس کی پہلی سطر ہی قاری کو اپنی گرفت میں لینی چاہئے۔ اسی لئے کہانی کے کردار اور واقعات کو بڑی مہارت سے بنانا پڑتا ہے۔ کہانی کی ہر حرکت بامقصد ہونی چاہئے۔ کمزور تحریر افسانے کو تباہ کردیتی ہے۔ اسی لئے افسانے کے سٹائل، ماحول، پس منظر اور دیگر عناصر پر خاص دھیان دینا ہوتا ہے۔ ہر جملہ کچھ نہ کچھ مطلب لئے ہونا چاہئے اور وہ موضوع سے متصادم اور بے وقعت نہ ہو۔ محض بھرتی کے لئے سطروں کا بے مقصد استعمال افسانے کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔ بیان پرکشش اور مناظر دلفریب ہونے چاہئیں۔افسانہ نگار اپنی بات کو اپنی مادری زبان میں زیادہ بہتر طریقے پر بیان کرسکتا ہے، بجائے اس کے کہ غیرزبان استعمال کرے۔
تحریریں کئی قسموں کی ہوتی ہیں۔ ایک تحریر بے اختیاری ہوتی ہے جو انسان کو لکھنے پر مجبور کردے۔ ایک اور لکھنا زبردستی کا ہوتا ہے کہ ذہن کو مشقت میں ڈال کر اس سے کچھ لکھوایا جاتا ہے۔ زبردستی سے لکھی گئی تحریر کھوکھلی اور بے وزن ہوتی ہے جب کہ وہ تحریر جس کو لکھنے پر دل آمادہ کرے بڑی گہری اور پر مغز ہوتی ہے۔لفظوں کا انبار افسانے کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا بلکہ مناسب الفاظ، برمحل محاورے اور خوبصورت ادبی لہجہ ایک کہانی کو معیاری اور کامیاب بناتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ لفظوں کی ساخت میں مہارت ہو اور واقعات کو ڈرامائی بنانے کا ہنر ہو۔ اور افسانہ نگار باتوں کو اس ترتیب سے بتانے کا گر جانتا ہو کہ قاری کو نشاط ملے۔ لکھنے کا معنی یہ نہیں ہے کہ جو دیکھا اُسے بیان کردیا۔ اُسے فوٹوگرافی کہتے ہیں یا اُسے عکس بندی کا نام دیا جاتا ہے۔ جو دیکھا لکھ لیا وہ خبر تو ہوسکتی ہے مگر ایسی تحریر کا تخلیق سے کوئی حصہ نہیں۔ تجربہ جب دل کی گہرائیوں میں تپ کر باہر آتا ہے تب ہی تخلیق کا روپ دھار لیتا ہے۔ ایک افسانہ نگار کی حیثیت میں میرا ادبی عقیدہ کچھ اس طرح کا بنا ہے کہ لکھنے کی صورت یعنی فارم تجربہ پر منحصر ہے جب کہ جینر یعنی ذریعہ اظہار یا ساخت تجربہ کی کیفیت سے تعلق رکھتا ہے۔ چاہے شاعری ہو یا کہانی، تجربہ خود ہی اپنا صحیح ذریعۂ اظہار بنالیتا ہے۔ صورت اور مواد ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہیں کہ انہیں علحیدہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک رائٹر تب تک لکھ ہی نہیں سکتا جب تک فارم یعنی صورت اور کنٹنٹ یعنی مواد متحد نہ ہوں۔ تجربوں کے ساتھ جینر یعنی ذریعہ اظہار خود ہی راستہ بنالیتا ہے۔ہر کسی کو لکھنے کا اپنا سٹائل ہوتا ہے۔ خیالات خود ہی اُبھرتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ خیال کب اور کس طرح اُبھر جائے گا۔ یہ کسی وقت بھی اُبھر سکتا ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ کچھ چیزیں خیال کو جوش دینے یا متحرک کرنے کا سبب بن جاتی ہیں، خیال پیدا نہیں کرتیں۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ جینر یا ذریعۂ اظہار مضمون کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ ان حلقوں کے مطابق ذریعہ اظہار ادبی تکنیک، انداز یعنی ٹون، مواد یہاں تک کہ اس کی طوالت سے بھی متعین ہوسکتا ہے۔ دوسری بات جو ذہن میں رکھنے کے لائق ہے وہ یہ کہ حقیقی زندگی میں کوئی غیر قدرتی واقعہ رونما ہوسکتا ہے مگر ایک کہانی میں قاری غیر حقیقی اور غیر قدرتی واقعات دیکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ ایک کہانی میں واقعات حقیقی اور قدرتی رنگ میں بیان ہونے چاہئیں۔ دراصل قاری کہانی میں ظاہر کئے گئے مناظر کو فطری رنگ میں اور عام زندگی کی طرح دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے۔
اس دنیا میں انبیاء ؑکے سوا کوئی انسان کامل نہیں ہوتا۔ لہٰذا افسانے کے کرداروں کو بھی متلون مزاج رہنا پڑتا ہے۔ جب عام زندگی میں کوئی اکمل نہیں ہوسکتا تو افسانے کا کردار کیسے ہوسکتا ہے!۔ اسلئے کہانی کا مرکزی کردار یعنی پروٹاگونسٹ بھی سو فی صد کامل نہیں ہونا چاہئے۔ کہانی میں ٹکراؤ یعنی کنفلکٹ پیدا کرنے کے لئے منفی کرداروں کو بھی سامنے لانا پڑتا ہے مگر ان میں بھی اتنی خامیاں دکھانا مطلوب نہیں ہوتا کہ یہ ہر خوبی سے محروم لگیں۔ کردار کہانی کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ یہ کردار کہاں سے آتے ہیں؟چونکہ ہم اپنی زندگی میں حقیقی کرداروں سے تحریک پاتے ہیں یا متاثر ہوتے ہیں، لہٰذا یہی کردار کچھ مبالغے کے ساتھ فکشنل کریکٹر کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ پہلے کردار آتا ہے اور پھر کہانی بنتی ہے۔آرٹ زندگی کا ہی حصہ ہے۔ زندگی کا دارومدار جذبات پر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر محبت، نفرت، وفا، بے وفائی وغیرہ جیسے جذبات ہی آرٹ کو اُبھارتے ہیں۔ آرٹ کسی ذہنی عیاشی کا عنوان نہیں اور نہ ہی یہ زندگی سے فرار کی کوشش ہے۔ آرٹ دماغی انتشار نہیں ہے۔ آرٹ میدان جنگ کی مانند ہے جس میں زندگی کی زیادہ سخت لڑائیاں لڑی جاتی ہیں۔ آرٹ میں زندگی کے پیچیدہ معمّوں پر بات ہوتی ہے اور زندگی کے اسرار کھول دئے جاتے ہیں۔ معلومات بندی یا اعدادوشمار کے علم کی افادیت سے انکار نہیں مگر یہاں سے دانائی کی فصل نہیں مل سکتی۔ اسی لئے ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی آرٹ کی اہمیت برقرار ہے۔
شارٹ سٹوری کتنی لمبی ہونی چاہئے یا کتنے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے، اس معاملے پر کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔ افسانے کے اختصار اور طوالت کی حدیں متعین نہیں ہیں۔ بس اتنا ہے کہ افسانہ کی طوالت اتنی ہو کہ ایک ہی نشست میں پڑھا جاسکے۔کشمیر میں بھی بڑے اچھے افسانہ نگار پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اعلی کوالٹی کی کہانیاں لکھیں۔ ان میں اختر محی الدین، امین کامل، ہری کرشن کول، ہردے کول بھارتی، ڈاکٹر رتن لال شانت، بنسی نردوش، اوتار کرشن رہبر، فیاض دلبر، فاروق مسعودی، محی الدین ریشی قابل ذکر ہیں۔