مشتاق مہدی
کہانی اور افسانہ ایک ہی سکے کے دو نام ہیں۔
لیکن کچھ خاص خصوصیات کے سبب انکے بیچ ایک فاصلہ بھی ہے ۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیںکہانی اور افسانے کا بنیادی عُنصرواقعہ ہے۔اور واقعے کو پیش کرنے کا طریقہ کار ہی انہیں ایک دوسر ے سے الگ بھی کردیتا ہے ۔کہانی میں ہم واقعہ کواہمیت دیتے ہیں۔ ہوبہو پیش کرتے ہیں۔کسی افسانہ طرازی کے بغیر ۔۔۔جیسے کوئی اخباری خبر ۔لیکن افسانے میں واقعے کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے محرکات کوبھی سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔فرد جس پر یہ واقعہ گزرتا ہے ۔اسکی باطنی صورت حال کا بھی جائزہ لیا جاتاہے اور اسکے ذہنی ردعمل سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔
کہانی میں ہم واقعات کو مَنطِقی طور پر انجام تک پہنچادیتے ہیں۔لیکن افسانے میںمَنطِق اُس طرح سے کام نہیں کرتی۔اس میں واقعات سے زیادہ فرد کی اہمیت احساس اور کیفیات پر زور دیا جاتا ہےاور افسانہ فرد، کردار یا کئی کرداروں کے خارجی و داخلی معاملات کا احاطہ کرکے آگے بڑھتا ہے ۔ اسکے برعکس کہانی یک رخی ہوتی ہے ۔ظاہر میں جو ہو رہا ہے۔ اُسے پیش کرنے کی سعی کی جاتی ہے اور اسکا بیانیہ سیدھا اور کسی قدر وضاحتی ہوتا ہے ۔جب کہ افسانے کے لئے وضاحتی ہونا اچھی بات نہیں۔انتظار حسین نے ایک انٹر ویو میں کہا ہے ۔وہ افسانہ ہی کیا جو افسانہ نگار لکھے اور قاری کے ذہن کے کسی کونے میں جاکربے حرکت سا بیٹھ جائے ۔نہ کوئی کُریدپیدا کرے ،نہ سوال اور نہ کشمکش ہی۔۔۔۔۔یعنی افسانے میں کچھ ایسا باقی رہنا چاہیے جو قارٖین کو سوچنے پر مجبور کرے ۔
اب رہی بات فکشن کی ۔۔۔۔ناول، ڈرامہ، افسانہ، کہانی۔۔۔۔ یہ سبھی اصناف سخن فکشن کے ہی زُمرے میں آتے ہیں۔لیکن لفظ فکشن کا الگ سے بھی ایک معنی ہے ۔شمس الرحمان فاروقی اپنی کتاب ۔۔۔افسانے کی حمایت میں لکھتے ہیں۔فکشن وہ تحریر ہے جس میں زبانی بیان کا عُنصر یا تو بالکل نہ ہویا کم ہو۔جیسا کہ ہم فلیش فکشن میں دیکھتے ہیں ۔اس میں برتی ہوئی زبان عام بول چال کی زبان سے مختلف ہوتی ہے ۔اور تحریر زوائید سے پاک اور چست ہوتی ہے۔
ایک اچھے افسانے کے لئے موضوعاتی تنوع، تخلیقی زبان، چست پلاٹ اور جاندار مکالموںکے ساتھ ساتھ ڈرامائیت کی اہمیت سے انکارممکن نہیں۔
���
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053