پتہ نہیں بے حیائی کی کوئی حد ہوتی بھی ہے کہ نہیں لیکن جموں کشمیر کے قصبہ کٹھوعہ میں 8؍ سالہ لڑکی سے جبر زنا بالجبر اور قتل کا جو المیہ وقوع پذیر ہوا ،اس سے یہ سب حدیں پار کر گئیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ اس کو ہوس کہیں، درندگی کہیں، بے شرمی کہیں یا انسانیت کی شکست کہیں، جو منآئے کہیں مگر خواب میں بھی نہیں سوچاجاسکتا کہ انسانیت اتنا نیچے گر سکتی ہے۔جبری زنا کی وارداتیں پہلے بھی ہوئیں، چھوٹی بچیوں کے قتل بھی ہوئے لیکن اس جگر سوز سانحے کی پہلے تو تفصیل ہی بہت دردناک ہے کہ ایسا کبھی نہ سنا تھا نہ دیکھا تھا۔بکروال ایک خانہ بدوش مسلم قبیلہ ہے جو جمو ں کشمیر میں بڑی تعداد میں رہتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر جموں خطے میں رہتے ہیں، گرمیوں میں کشمیر کے پہاڑوںمیں آبادسبزہ زاروں’’رکھ‘‘ میں مال مویشی لے چلتے ہیں، وہیں تنبو لگا کر عارضی رہائش کرتے ہیں اور سردیوں میں واپس آ جاتے ہیں۔ اس طرح کی زندگی کا سب سے بُرا اثر بچوں کی تعلیم پر پڑتا ہے۔اسی طرح کٹھوعہ کی 8؍ سالہ بچی آصفہ سکول تو نہیں جا سکی لیکن وہ روزانہ شام کو گھر کے سارے مال مویشی کی گنتی کیا کرتی تھی۔ اگر کوئی پشو چراند سے گھر واپس نہیں پہنچا ہوتا تو جنگل میں دوڑ تے ہانپتے اس کی تلاش کر کے اسے گھر لے آتی۔ معصوم بچی کو گود لینے والے بدنصیب باپ کا کہنا تھا کہ آصفہ گنتی میں کبھی غلطی نہیںکرتی ، اکیلے جنگل جانے سے نہ ڈرتی ، جنگلی جانوروں کا خوف بھی نہ رکھتی۔ گویا یہ لڑکی اپنی عمر کے لحاظ سے بہت سمجھ دار اور بہادر تھی لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی سمجھ داری اور بہادری اسے اپنے ساتھ پیش آئی ٹریجڈی سے کیوں نہ بچا سکی؟ شاید اس کرکے وہ صرف پشوئوں کی گنتی کرنا جانتی تھی، انسانوں کی پہچاننے سے قاصر تھی ۔ اُس کو جنگلی جانوروں کا خوف نہیں تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی اس جنگل میں انسان نمادرندے بھی آ باد ہیں۔ ۷ ؍جنوری کی منحوس شام وہ جنگل میں اپنے گھوڑے کی تلاش کر رہی تھی، یکایک اُس کا پالا سب سے زیادہ حیوانی سرشت رکھنے والے انسان سے پڑا کہ گھوڑا گھر آ گیا لیکن آصفہ نہ آئی۔ بچاری کو پہلے سے ہی خرید کر رکھی گئی بے ہوشی کی دوائی زبردستی پلائی اور سب سے بدترین گناہ کے لئے بھگوان کے گھر میں چھپا دیا گیا۔کہتے ہیں کہ بھگوان تو سات پردوں کے اندر بھی گناہ ہوتا دیکھ لیتا ہے لیکن یہاں اپنی آنکھوں کے سامنے ایک مظلومہ کے ساتھ سات دن مسلسل گناہ ہوتا کیوں نہیں دیکھ سکا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا سات دن تک ہماری بچی کو مندر میں صرف بے ہوشی کی دوائیوں کی خوراک پر زندہ رکھا گیا تاکہ بار بار اس کی عزت ریزی کی جاسکے۔اب پولیس تفتیش سے جو خوف ناک راز سامنے آرہے ہیں وہ بولنے بھی مشکل ، سننے بھی مشکل اور لکھنے بھی مشکل ہیں۔ کرائم برانچ کی جانب سے ڈی ۔ این۔ اے ٹیسٹ میچ ہو چکے ہیں ، فون کالیں ریکارڈ ہو چکی ہیں، انسانی بال بھی میچ ہو گئے ہیں۔ اب باقی کیا رہا جس کے لیے کنول بردار سی بی آئی جانچ کی مانگ کرر ہے ہیں؟ اس کے لئے ترنگے جھنڈے نکالے، ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے لگائے ، بھوک ہڑتال کی۔ پہلے پہلے تو لگا تھاکہ شاید یہ لوگ ناپاک کرم ہونے سے مندر کی بے حرمتی کے خلاف پروٹسٹ کر رہے ہیںلیکن بعد میں پتہ چلا کہ’ ’ہندو ایکتا منچ‘ ‘کا مقصد ملزمان کا بے جا دفاع ہے۔ پھر کرائم برانچ کے چالان نے دل د ہلا دئیاور معلوم ہوا کہ اس عزت ریزی کے پیچھے ہوس کم اور فرقہ دارانہ نفرت زیادہ دخیل تھی۔ ایک طبقے کے کچھ لوگوں کو دوسرے طبقے کے لوگوں کی شکلیں پسند نہیں، اُن کاکھٹوعہ میںرہنا سہناپسند نہیں اور اپنی نفرت کو باوزن بنانے کے لئے’ ’ جموں میںآبادی کا توازن بگاڑا جا رہاہے‘‘ جیسے بے ہودہ نعرے کا پیوند بھی کیا گیا۔پتہ نہیں کیا ہوتا ہے آبادی کے توازن میں بگاڑ۔آبادی کا مطلب ہوتا ہے آدمی، انسان کئی مذاہب سے وابستہ ہو سکتے ہیں، رنگ، نسل اور خیال مختلف ہو سکتے ہیں مگر رہنا سبوں نے ایک ہی آکا ش تلے ایک ہی زمین پر ہے۔ حد ہو گئی اس ’’توازن‘‘ کو بچانے کے لئے باپ بیٹا، چچا بھتیجا اور مندر کا پجاری مل کر تباہ کن سکیم بناتے ہیں اور کم سن بچی کو اغواء کرکے بھگوان کی دھرتی پر پاپ کا جشن پُنیہ سمجھ کر
مناتے ہیں۔ ہمیں سکون ہے، تسلی ہے اورشکر یہ کرتے ہیں کہ سارے لوگ ہی ’’توازن‘‘ قائم کرنے کے لئے نہیں چل پڑے بلکہ درندوں کی ایک مخصوص سنگ دل منڈلی کو چھوڑ کر آ بادی کا ننانوے فی صد طبقہ آصفہ کو اپنی بیٹی سمجھ کر رورہاہے اور انصاف طلبی کی جدو جہد میں پیش پیش ہے۔یہ لوگ اس المیہ کے وکیل بھی ہیں، گواہ بھی ہیں اور تفتیش کار بھی ہیں ۔ ’’جموں بند‘‘ کے اعلان میں پتھردل دیوانوں کوبھاجپا کی حما یت تھی مگر یہ عام ہندوؤں کی حمایت حاصل نہ کر سکا۔بہت سارے شہروں اور قصبوں میں اس کا بالکل کوئی اثر نہ تھا۔ ہاں ایک بات ضرور ہے، بہت سے لوگ اس طرح کے حماقت آمیز بند یا ہڑتال کو یہ سوچ کر سوئیکار کر تے ہیں کہ اپنا کاروبار بند کر کے گھر بیٹھ جاؤ ، کون پاگلوں سے ماتھا چپکی کرے، بچائو میں بچائو ہے۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ وکیلوں کے لئے لڑائی کا ہتھیار قانون ہوتا ہے لیکن کھٹوعہ کی عدالت میں یہ حضرات پولیس کی طرف سے کیس کا چارج شیٹ داخل کرنے پر دھکا مُکی کرتے ہیں، وکیل ہڑتالیں کرواتے ہیں ،نعرے لگاتے ہیں اور ملزموں کی طرف داری کرتے ہیں۔ کہیں یہ اَن پڑھ اور قانون کے باغی تو نہیں جنہوں نے وکالت کا لبادہ اوڑھا ہو اہے۔ اگر یہ قانون کو جانتے ہیں، جرح کرنے کا ہنر جانتے ہیں، بحث وجدال کے آداب سے آگاہ ہیں توعدالت میں قانونی دلیلوں سے اپنی بات منوانے کے بجائے یہ کیا حرکت کر گئے ؟وکیلوں واسطے قانون مقدس شئے ہے اور روٹی روزی کا بہانہ بھی لیکن اگر وہ خود بے ادبی پر اُتر آئیںتو قانون کی بالادستی پراعتقاد رکھے گا کون؟ایک بات اور نوٹ کرنے کے قابل ہے۔ ادھر جو آصفہ کے ساتھ ہوا پاکستان کے شہر قصور میں اسی سال جنوری میں سات برس کی کلی زینب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ پاکستان کی پولیس نے مجرم کو پکڑاا ور مجاز عدالت نے اس کو چار بارپھانسی کی سزا سنا دی ، جب کہ ہائی کورٹ نے اس کی جان بخشی کی اپیل خارج کر دی۔ راقم سزائے موت کے حق میں نہیں لیکن ہمسایہ ملک میں انصاف کی تیزی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ہمارے یہاں آصفہ کیس کے تعلق سے لوگوں کا غم وغصّہ قابل فہم ہے کہ گناہ گاروں کو سزائے سخت دینے کی مانگ کرتے ہیں، درُست ہے ہر جرم کی اپنی سزا بہت ضروری ہے لیکن اس موقع پر یاد رکھاجاناچاہیے کہ ہمیں گناہ گاروں سے نہیں گناہوں سے نفرت کرنی ہوگی۔ بایںہمہ آصفہ کو بغیر رُورعایت انصاف ملنا از حد ضروری ہے ۔
رابطہ 09878375903