ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
ارے بچو! کیوں یہ کچے آم توڑتے ہو؟کچے آم کھاؤ گے توبیمارہوجاؤگے۔
میں نے ان مہاجر برمی بچوں کو اتنا ہی کہا۔ مگر ہمارے گھرکے ملازم نے ان کو بڑے غصے سے ڈانٹا اور کہا۔ دفع ہوجاؤ ۔ دوبارہ اِدھر نظر آئے تو ٹانگیں توڑدوں گا ۔بچے بہت سہم گئے ۔ انہوں نے وہ آم وہیں چھوڑ دیئے اور بھاگتے ہوئے نیچے کی گلی میں، جہاں ان کی جھگی تھی، چلے گئے ۔
بھاگتے ہوئے ان میں سے میں نے ایک بچے سے پوچھا۔
بیٹا! یہ کچے آم کھانے سے بیمار پڑجاؤ گے ۔
صاحب! ہم ان کی چٹنی بناکر پھلکوں کے ساتھ کھاتے ہیں۔ اس نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا ۔
آج دو دِن سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ابّو بیمار ہیں۔ وہ چار پانچ دنوں سے کام پر نہیں گئے ۔ وہ بولتا گیا ۔
یہ سُن کر میں کانپ اُٹھا ۔ دِل نے کہازور زورسے روکراس غم کا اظہار کروں کہ یہ لوگ اپنے وطن سے نکال دیئے گئے ہیں۔
ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں اور یہاں ان کی یہ حالت ہے کہ انہیں کھانے کو کچھ نہیں ہے ۔
اچھا! جاؤ! میں نے کہا۔
جاتے ہوئے میں نے نظر رکھی کہ وہ کہاں رہتے ہیں ۔
اس کے بعد میں نے بازار سے آٹا ،چاول ، تیل ، نمک ، مرچ وغیرہ خرید کر منگوایا اور ملازم کو ساتھ لے کر ان کے گھر دینے خود ہی چلا ۔
جھونپڑی میں داخل ہوتے ہی بچوں کی ماں مجھے دیکھ کر ڈر گئی ۔ وہ مصّلے پر بیٹھی نماز سے فارغ ہوچکی تھی۔
بولی ! صاب ! اِن بچوں کو معاف کریں۔ یہ بہت شرارتی ہیں۔ دوبارہ اُس طرف نہیں آئیں گے ۔ آج آپ معافی دیں۔
آپ کی مہربانی ہوگی۔
وہ ڈر کے مارے کانپ رہی تھی۔
نہیں!بہن جی۔ کوئی بات نہیں
آپ گھبرائیں نہیں۔ یہ لو ۔ میں نے آپ کے لئے یہ راشن وغیرہ لایا ہے۔یہ کہتے ہوئے میں نے
ملازم کو اشارہ کیا کہ وہ یہ سامان بوڑھی ماں کے آگے رکھے ۔
یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوگئیں۔ خوشی کے مارے اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ بچے، جواب تک ڈر کی وجہ سے ایک کونے میں دُبکے پڑے تھے ، سامان دیکھ کر خوشی سے اُچھل پڑے ۔
ان کا چولہا کئی دنوں سے ٹھنڈا پڑا تھا۔
اُس کا خاوند بخار کی وجہ سے زمین پر نڈھال پڑا تھا۔ وہ بھی یہ سب دیکھ کر خوش ہوا۔
صاب! مجھ کو ایک اپنے برمی ساتھی نے کہا تھاکہ ادھر کہیں پاس میں ہی کوئی محی الدین صاحب رہتے ہیں۔ وہ ہر کسی کی مدد کرتے ہیں۔ آپ بھی ان کے پاس جاؤ۔ وہ آپ کی ضرور امداد کریںگے ۔ بوڑھے خاوند نے کہا۔
اسی وجہ سے میں نے ان بچوں کو اُن کا پتہ معلوم کرنے کے لئے بھیجا تھا تاکہ میں اورمیرابیمار میاں آہستہ آہستہ ان کے ہاں جائیں گے ۔
بڑھیا نے کہا۔مگر یہ بچے ان کا پتہ معلوم کرنے کے بجائے آپ کے یہاں آم توڑنے چلے گئے ۔ آپ معاف کرنا ۔ یہ دوبارہ اس طرف نہیں آئیں گے ۔
بہن جی! میں ہی محی الدین ہوں۔
یہ سُن کر وہ اور زیادہ خوش ہوگئی۔
یہ بچے کیا کرتے ہیں؟ اور یہ لڑکی…؟ میں نے پوچھا۔
دونوں بچے کباڑ جمع کرکے بیچتے ہیں جس سے ہمارا گذارا چلتا ہے ۔ آج یہ بھی تین دنوں سے گھر پر ہی ہیں کیونکہ بارش کی وجہ سے باہر نہ جاسکے ۔ بیٹی درس گاہ میں پڑھتی ہے ۔ یہ بھی اتنے دنوں سے وہاں نہیں گئی کیونکہ ادھر باپ بیمار ہے اوراُدھر کھانے کو کچھ نہیں ہے ۔
اچھا! اب کھانا بناؤ۔ خود بھی کھاؤ اور بچوں کو بھی کھلاؤ۔ میں بڑے میاں کے لئے دوائی بھی بھجواتا ہوں۔
باہر نکلتے ہوئے میں نے بہن جی سے کہا۔ بچی کو باقاعدگی سے پڑھاؤ۔ بیٹی ماشا ء اللہ بڑی ہوگئی ہے ۔ اس کا کہیں رشتے کا سوچا ہے ؟ میں نے پوچھا؟ ایک جگہ بات پکی کی ہے ۔ وہ توشادی کے لئے تیار ہیں مگر ہم……… ہمارے پاس توکچھ بھی نہیں ہے ۔ اُس نے روتے روتے کہا۔میں تو اس بوجھ سے جلد سے جلد فارغ ہونا چاہتی ہوں مگر مجبوری ہے ۔ وہ بولتی گئی۔
آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ اللہ انتظام کرنے والا ہے ۔ آپ ان کو کہہ دو کہ ہم بھی شادی کے لئے تیار ہیں۔ میں انشاء اللہ سب بندوست کردوںگا ۔ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
یہ کہہ کر میں باہر نکل ہی رہا تھا کہ گھر سے میرا بیٹا دوڑتا ہواآیا ۔ بولا! ابو ! جلدی آؤ۔ گھر میں خواجہ شکیل صاحب اور ان کی بیگم آئی ہیں۔ وہ آپ سے ملناچاہتے ہیں۔
میں تیز تیز قدموں سے گھر پہنچا۔ داخل ہوتے ہی معلوم ہوا کہ وہ لوگ ہماری بیٹی کا رشتہ مانگنے خود ہی چلے آئے ہیں۔ یہ واقعی اُن کا بڑا پن تھا۔ میں خوشی سے پھولے نہ سمایا ۔ وہ ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ مالدار ، دیندار اورصاحب حیثیت ہیں۔ ان کا اکلوتا بیٹا بھی صاحب روزگار شریف النفس اور صوم وصلوٰۃ کا پابند ہے۔ ہمیں اور کیا چاہئے تھا؟
انہوں نے بیٹی کا ہاتھ مانگا اور ہم نے فوراً ہاں کردی۔
میں خو د بیٹی کے رشتہ کے لئے بڑا ہی پریشان تھا۔ بڑے رشتے آئے تھے مگر کوئی موزوں رشتہ نہیں مِل رہاتھا۔ آج اللہ تعالیٰ نے مہربانی سے نوازا ۔
سچ ہے رب کائنات اپنے وقت پر دُعاؤں کو قبول کرتاہے ۔
رخصت ہونے سے پہلے شکیل صاحب نے کہا کہ وہ گھر میں کسی کام میں مشغول تھا کہ اچانک کسی غیبی آواز نے کہا کہ اُٹھو! فلاں کے ہاں جاؤ! اُن کی بیٹی کا ہاتھ مانگو ۔ اس خیال کو نہ تو میں نظر انداز کرسکا اور نہ ہی ٹال سکا ۔ دل ودماغ میں وہ تلاطم مچی کہ مت پوچھو! اب آپ کی ہاں سن کر ہم دونوں کوسکون مل گیا ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
میںنے شکیل صاحب اوران کی بیگم کو رخصت کیا اور خود ہم دونوں سجدۂ شکر کی ادائیگی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گرگئے ۔
’’حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتاہے تو وہ ایسے وسائل پیداکرتاہے جن کا انسان کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ہے ‘‘۔
اور دوسری حدیث میں ہے ۔
’’فکر وپریشانی کو دور کرنے کیلئے نماز پڑھو ۔ دعائیں مانگو اور صبر کرو ۔ نتیجہ خود بخود اپنے وقت پر سامنے آئے گا۔‘‘
���
ہمہامہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9906111091