سپریم کورٹ کے احکامات پرمرکزی تفتیشی بیورو کی کارروائی
سرینگر// سپریم کورٹ کی ہدایت پرمرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے2سال قبل مشترکہ تفتیشی مرکز ( JIC)کپواڑہ میں ایک پولیس کانسٹیبل کے حراستی تشدد کے معاملے میں2 افسران سمیت 6 پولیس اہلکاروں اور2 عام شہریوں کو گرفتار کرلیا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے اور غیر قانونی حراست کے دوران تشدد سے متاثرپولیس کانسٹیبل کو 50لاکھ کا معاوضہ دیا جائے۔گرفتار اہلکاروں میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اعجاز احمد نائیکو، انسپکٹر ریاض احمد، جہانگیر احمد، امتیاز احمد، محمد یونس اور شاکر احمد شامل ہیں۔ پولیس اہلکار تشدد کے وقت جے آئی سی کپواڑہ میں تعینات تھے۔
کیس
گزشتہ ماہ عدالت عظمیٰ کے حکم میں متاثرہ کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کے لیے احتساب اور انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ نے اس بربریت کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کانسٹیبل کو لگنے والی شدید چوٹوں پر روشنی ڈالی۔ اس نے سی بی آئی کو ایف آئی آر درج کرنے اور متاثرہ کو 50 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا تھا جو ملوث پولیس اہلکاروں سے وصول کرنے کی ہدایت بھی دی تھی۔عدالت عظمیٰ کی مداخلت کے بعد درج کی گئی ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ (SKIMS) صورہ، سرینگر کے میڈیکل ریکارڈ میں بتایا گیا ہے کہ انٹروگیشن کے دوران پولیس کانسٹیبل کاجنسی اعضاء کاٹا گیا، بجلی کے جھٹکے دیئے گئے،ہتھیلیوں ،پیروں اور کولہوں پر چوٹیں، کمر کے کئی حصوں تک پھیلے ہوئے زخم اور پورے جسم میں فریکچراور جسم کے پچھلے حصے میں لوہے کی سلاخ ڈالی گئی۔۔متاثرہ پولیس کانسٹیبل کی بیوی نے ایک تحریری شکایت میں بتایا تھا کہ اس کے شوہر کو 20 فروری 2023 کو جے آئی سی، کپواڑہ میں حراست میں لیے جانے کے بعد سے کس آزمائش سے گزرنا پڑا۔شکایت میں کہا گیا تھا کہ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، کپواڑہ نے انکے شوہر کو انچارج ڈی ایس پی اعجاز احمدنائیکو اور ایس آئی ریاض کے حوالے کیا، جنہوں نے انکے شوہر کو6 دن تک قید میں رکھا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا، اور اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اہلکار خورشید کوکسی جگہ نیم مردہ حالت میں چھوڑ کر جا رہے تھے، لیکن قریبی علاقے کے مکینوں کی چیخ و پکار کی وجہ سے پولیس اہلکار اسے ہسپتال منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے۔اس نے مزید الزام لگایا کہ پولیس اہلکاروں نے اس کے شوہر کو 6 دن تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی شرمگاہ کاٹ دی گئی، اس کے علاوہ 6 دن تک مسلسل اس کی شرمگاہ میں لوہے کی سلاخیں ڈالی گئیں، اس کے ملاشی میں سرخ مرچ بھی ڈالی گئی اور اسے بجلی کے جھٹکے بھی دیے گئے۔متاثرہ پولیس کانسٹیبل کی بیوی نے الزام لگایاکہ ایس ایس پی نے محض تماشائی کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسانی تاریخ میں اس طرح کے وحشیانہ تشدد کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ خورشید کی قید کے چھ دنوں کے دوران کسی رشتہ دار یا خاندان کے کسی فرد کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔21 جولائی کو، سپریم کورٹ نے متاثرہ کے خلاف درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کو منسوخ کر دیا اور 50 لاکھ روپے معاوضے متعلقہ افسر (افسروں) سے وصول کرنے کا حکم دیا جن کے خلاف سی بی آئی کی تحقیقات کے اختتام پر محکمانہ کارروائی شروع کی جائے گی ۔سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو10 نومبر2025 تک اپنی سٹیٹس رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مشاہدہ کیا کہ یہ مقدمہ منظم طریقے سے چھپنے اور اختیارات کے غلط استعمال کے پریشان کن نمونہ کو ظاہر کرتا ہے۔عدالت نے مشاہدہ کیا کہ مقامی پولیس اہلکاروں کی طرف سے استعمال کیا جا رہا اثر و رسوخ اس حقیقت کو ظاہرکرتا ہے کہ تشدد کے واضح طبی ثبوت کے باوجود کوئی مناسب تفتیش شروع نہیں کی گئی۔ اور اس کے بجائے، خود متاثرہ کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 309 کے تحت ایک جھوٹا بیانیہ تیار کرنے کے لیے جوابی ایف آئی آر نمبر 32/2023 درج کی گئی۔سی بی آئی، جس نے پہلے 29 جولائی2025 کو ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، ان پر مجرمانہ سازش، قتل کی کوشش، غلط قید اور رضاکارانہ طور پر خطرناک ہتھیاروں سے چوٹ پہنچانے کے الزامات عائد کیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو ملزم افسران کی گرفتاری کے لیے ایک ماہ اور تحقیقات مکمل کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت دیا تھا۔