نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ریپ ’’کرائم آف پیشن‘‘ یعنی جذباتی جرم نہیں بلکہ ’’کرائم آف ریونج‘‘ یعنی انتقامی جرم ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہے جسے کسی قبیلے یا قوم سے انتقام لینے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔کٹھوعہ کی ننھی بچی کے ساتھ جو شرمناک ظلم ہوا ، اس کی تفصیلات منظر عام پر ہیں، لیکن اس قبیح جرم کے پیچھے جو نیت کارفرما تھی، وہ واقعی ایک مخصوص طبقے کے ساتھ نفرت، عداوت اور انتقام سے عبارت ہے۔اب چونکہ اس معاملہ پربھارت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا، ایسا لگتا ہے کہ بچی کے والدین کوعلامتی ہی سہی لیکن کسی نہ کسی شکل میں انصاف دیا جائے گا۔ یہ سوشل میڈیا کی کرشمہ سازی ہے، یا پھراس واقعہ میں پنہاں سیاسی و علاقائی کشمکش، کہ کٹھوعہ میں ہوئی اس واردات کی گونج دُورافتادہ گاؤں رسانہ سے نکل کر اقوام متحدہ کے ایوان اور نیویارک ٹائمز کے نیوز رُوم میں بھی سنائی دی۔
لیکن 23فروری 1991کی اُس منحوس رات کو جو کچھ کپوارہ کے کنن پوش پورہ میں ہوا ، اُس سے نہ بھارت کا ضمیر مجروح ہوا، نہ کسی فلمی اداکار نے لب کشائی کی ، نہ مغربی میڈیا میں سرخیاں لگیں، نہ مشعل بردار جلوس نکلے، نہ کسی نے بھوک ہڑتال کی، نہ کوئی گرفتار ہوا، نہ وزیروں سے قلمدان چھینے گئے اور نہ سپریم کورٹ نے کوئی نوٹس لیا۔انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں اس واردات سے متعلق جو ریکارڑ موجود ہے اس کے مطابق فوج نے گاؤں کے 200مردوں اور لڑکوں کو کمروں میں بند کرکے ان کا اذیت ناک ٹارچر کیا، اور درجنوں خواتین اور لڑکیوں کا اجتماعی ریپ کیا گیا۔فرق دیکھئے نا، کٹھوعہ اور کنن میں۔ اجتماعی ریپ کی واردات کے نو ماہ بعد جب پریس کونسل آف انڈیا کا فیکٹ فائنڈنگ وفد بی جی ورگیز کی قیادت میں سرینگر آیا تو کئی روز کی ’’تحقیقات‘‘ کے بعد بلند بانگ دعویٰ کیاگیا کہ ’’کنن پوش پورہ کا واقعہ بہت بڑا جھوٹ ہے جسے ملی ٹینٹ گروپوں نے بیرون ملک آقاؤں کی مدد سے گڑھ لیا ہے۔‘‘ گویا ورگیز نے کنن میں ہوئے ’’کرائم آف ریونج‘‘ پر مہرتصدیق ثبت کرڈالی۔ اس اجتماعی ریپ کے زخم ابھی مندمل نہیںہوئے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کٹھوعہ ریپ کیس کے سلسلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے سخت سٹینڈ لیا، لیکن کنن پوش پورہ کیس پر 2015میں اُسوقت حکم امتناعی سنا دیا جب سماجی کارکنان ، طالبات اور محققین نے اس کیس کو ریاست کے انسانی حقوق کمیشن کی مدد سے دوبارہ زندہ کرلیا تھا۔ یہی حال شوپیان کی آسیہ اور نیلوفر کے بہیمانہ قتل کے کیس کا ہوا ہے۔
اکثر اعتدال پسند حلقے کہتے ہیں کہ کشمیر میں مسلہ انصاف کی عدم حصولی کا ہے، جب انصاف کے اداروں پر سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے تو آبادی انتہائی اقدامات کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ اس تھیوری سے قطع نظر، کٹھوعہ ریپ اور قتل کیس میں وزیراعلی محبوبہ مفتی اور ان کی پارٹی کی تھوڑی بہت امیج بہتر ہوئی ہے۔ لیکن اگر وہ کنن پوش پورہ کی بات نہیں کریں گی، تو کٹھوعہ کی جیت ماند پڑجائے گی۔ کیونکہ کٹھوعہ کیس کے حوالے سے عالمی رائے عامہ موبلائز ہوئی اور حکومت ہند کی شبیہ کا مسلہ پیدا ہوگیا ۔ بات تب بنے گی جب محبوبہ مفتی نہ صرف کنن پوش پورہ کے متاثرین کے معاوضہ کی فائل دوبارہ کھولیں بلکہ قصورواروں کو سزا دلوانے کی علی الاعلان سفارش کریں۔ سپریم کورٹ میں ریاستی حکومت اس کیس کی باپت دوبارہ درخواست دے سکتی ہے۔ لیکن ایسا اس لئے ممکن نہیں کیونکہ کٹھوعہ میں ڈیپ سٹیٹ کا مفاد مجروح نہیں ہوگا جبکہ کنن پوش پورہ کی خواتین کو انصاف ملا تو گہری ریاست کے مفادات اور فوج کے مورال کو نقصان پہنچے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہاں کا مین سٹریم طبقہ انصاف کی فراہمی کو سیاسی مفادات کی عینک سے دیکھتا ہے، یا پھر واقعہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومت محض ربر کی ایک مہر ہے جسے گہری ریاست کے مفادات کی آبیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس معاملہ کا ایک اور پہلو سماجی ہے۔اب دیکھئے نا موم بتیاں جلانے اور پلے کارڈ ہاتھ میں اُٹھانے کے لئے سبھی حلقے ایک دوسرے پر سبقت لینا چاہتے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ لوگ حساس ہیں۔ ظاہر ہے مقتولہ ایک غریب، خانہ بدوش گجر خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ لیکن سماج کی یہ حساسیت کنن پوش پورہ کے حوالے سے کیوں نہیں؟23فروری کے روز لوگ معمول کا کام کاج کرتے رہے۔ کسی انجمن یا تنظیم نے کوئی دھرنا نہیں دیا، کوئی موم بتی نہیں جلی ، کوئی پلے کارڈ نہیں اُٹھا۔ مظلوم قوموں کاسب سے زیادہ نقصان غفلت سے ہوا ہے۔جب یہودیوں کے ساتھ ظلم ہوا تو انہوں نے اپنی مزاحمت کا نام Resistance Against Forgetting رکھا۔ یعنی بھول جانے کے خلاف مزاحمت۔ یہی وجہ ہے کہ ادب سے سینما تک اور سیاست سے معیشت تک ہر طرف ہالوکاسٹ کی یاددہانی ہے۔آسیہ اور نیلوفر کا معاملہ دو سال میں فراموش ہوگیا، کنن پوش پورہ بھی کسی کو یاد نہیں۔ چند نفری سول سوسائیٹی گروپوں کے لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ زیادتیوں کے طویل دفتر کا مطالعہ کریںاور سڑکوں پر دیکھا دیکھی میں دھرنے کی بجائے باقاعدہ منصوبہ بند طریقے سے دنیا تک ویسے ہی ہماری کہانی کے باقی ابواب بھی پہنچائیں، جیسے کٹھوعہ کا باب ہر چہارسو پہنچ گیا۔اصل کردار تو سماجی حلقوں کو ہی نبھانا ہوتا ہے بشرطیکہ وہ خفیہ سیاسی پشت پناہی سے پاک ہوں۔ ورنہ سیاسی گروہ قہر سامانیوں اور اندوہناکیوں کو بھی خام مال سمجھ کر اس سے اپنی سیاسی دوا دارو بناتے ہیں۔اسی لئے ضروری ہے کہ کٹھوعہ کے بعد اب کنن پوش پورہ کی بھی بات ہو۔
……………………………..
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)