سرینگر//کٹھوعہ آبرو ریزی و قتل کیس نے جہاں3 ماہ کے بعد بیرون ریاستوں اور ملکوں میں دستک دی وہیں کنن پوشہ پورہ کی متاثرہ خواتین کے آنسو28برس بعد بھی رائے عامہ منظم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ کپوارہ کے کنن پوشہ پورہ علاقے کی متاثرہ خواتین کیلئے وزیر اعلیٰ کا یہ بیان قابل سراہنا ہے کہ کٹھوعہ میں کمسن بچی کے قاتلوں کو نہیں بخشا جائے گا،تاہم وہ اس بات پر دل ملول ہیں کہ وزیر اعلیٰ نے ان سے بھی کوئی وعدہ کیا تھا،جس کو اب تک عملایا نہیں گیا۔متاثرہ خواتین نے سرینگر میں اتوار کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ متاثرہ بچی کے اہل خانہ کس صورتحال سے گزر رہے ہونگے ،اس کا انہیں بخوبی علم ہے۔انہوں نے کہا’’ کمسن متاثرہ بچی کی ان سنی چیخیں ہماری کانوں میں گونج رہی ہیں،کیونکہ ہم خود اسی دور اور درد سے گزرے ہیں،اس لئے انکی کسک کو محسوس کر سکتے ہیں‘‘۔ان متاثرہ خواتین نے بتایا کہ کھٹوعہ واقعہ کے ہر ایک پہلوپر انکی نظر گزشتہ3ماہ سے مرکوز ہیں،کیونکہ اس واقعے نے اس کے زخم ہرے کئے ہیں۔کنن پوشہ پورہ کی ایک متاثرہ خاتون نے بتایا’’جب23 فروری کی رات آتی ہے،تو ہمارے جسم سے جیسے روح ہی پرواز کرتی ہے،کیونکہ ہمیں ماضی کے وہ مناظر یاد آتے ہیں،جنہیں دہرانے سے بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس رات جب یہ سانحہ پیش آیا ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا،جو تا حیات ہم کھبی بھول نہیں سکتے۔انہوں نے کہا’’سانحہ کی رات بھر علاقے کے جانور،جن میں گائے،بھیڑ اور دیگر جانور ہیں،روتی آواز میں چلاتے رہے،اور آج تک اس اسرار سے ہم بے خبر ہیں،اور یہی کچھ آصفہ کے علاقے میں بھی ہوا ہوگا‘‘۔نہوں نے کہا کہ گزشتہ28برسوں سے وہ عدالتوں کا طواف کر رہے ہیں،تاہم آج تک انہیں انصاف نہیں ملا،تاہم انہیں امید ہے کہ انصاف ضرور ملے گا۔انہوں نے کہا ’’پی ڈی پی صدر کی حیثیت سے محبوبہ مفتی نے کنن پوشہ پورہ کا دورہ کیا تھا،جس کے دوران انہوں نے وعدہ کیا تھا،کہ متاثرہ خواتین کو انصاف دلانے میں وہ اپنا کردار ادا کرینگی،تاہم گزشتہ3برسوں سے برسراقتدار رہنے کے باوجود بھی ابھی تک زمینی سطح پر کچھ نہیں کیا‘‘۔انہوں نے کہا کہ نربھیا کا معاملہ ہو یا دامنی کا،ہمیشہ ہی بیرون ریاست لوگوں نے یک زباں میں خواتین کی عصمت ریزی کے مجرمین کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کیا،تاہم کنن پوشہ پورہ واقعے پر کوئی بھی لب کشائی نہیں کی‘‘۔انہوں نے کہا کہ چونکہ کنن پوشہ پورہ واقعہ میں فوج براہ راست ملوث ہے،اس لئے بھارت کا’’ مہذب سماج‘‘ فوج کو بدنام نہیں کرنا چاہتی،تاہم ان کا کہنا تھا کہ خواتین کشمیر کی ہو یا،کسی اور جگہ کی،جبکہ عصمت کے لیٹرے عام شہری ہو یا وردی پوش،ہر ایک کے حقوق ہے،اور ہر ایک کو سزا دی جانی چاہے۔ان خواتین کے ہمراہ آئے مردوں جن میں غلام احمد ڈار اور محمد اشرف بھی موجود تھے،نے بتایا کہ اگر کنن پوشہ پورہ واقعے میں قصور واروں کو سزائیں دی جاتی،تو شائد ہندوارہ،چھانہ پورہ اور شوپیاں واقعہ کے ساتھ ساتھ کھٹوعہ واقعہ بھی پیش نہیں آتا۔غلام احمد ڈار نے کہا کہ40متاثرین میں 5 کی موت واقع ہوچکی ہے،اور شائد سرکار چاہتی ہے کہ ایک ایک کر کے سب متاثرین کی موت واقع ہو،تب تک تاخیری حربے آزمائے جائیں۔متاثرہ خواتین نے کہا کہ ان کا کیس گزشتہ3برسوں سے سپریم کورٹ میں لٹکا ہوا ہے،اور ابھی تک کوئی بھی شنوائی نہیں ہوئی،اس لئے ہم وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کرتے ہیں،کہ اس کیس کو واپس وادی منتقل کیا جائے،کیونکہ انکی حکومت نے ہی کیس کو سپریم کورٹ پہنچایا۔ان کا کہنا تھا ’’ وزیر اعلیٰ دہرا پروچ نہیں کرسکتی،ایک طرف کٹھوعہ قتل و عصمت ریزی کیس میں فاسٹ ٹریک عدالت کے قیام کی وکالت،اور دوسری جانب کنن پوشہ پورہ اجتماعی عصمت ریزی کیس میں جوں کی توں پوزیشن کی طرف دار نہیں ہوسکتی‘‘۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ 28 برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک درجنوں خواتین حصول انصاف کی منتظر ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں بھی خاموش نظر آرہی ہے۔تاریخ کے اس بدترین سانحہ نے جہاں حصول انصاف کے ادرواں پر سوالیہ نشان لگا دیا،وہی سیاست دانوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا۔حقوق انسانی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ سرینگر سے لیکر دہلی تک اس واقعے پر سلامتی ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں نے کھبی بھی شرمساری کا اظہار نہیں کیا ۔2013میں امور خارجہ کے سابق وزیر سلمان خورشید نے سرینگر دورے کے دوران کن پوشہ پورہ میں پیش آئے واقعے پر کہا تھا’’ میں کیا کہو؟میں صرف یہ کہ سکتا ہو کہ میں اس پر شرمسار ہو،کہ یہ میرے ملک میں پیش آیا۔میں معذرت خواہ اور حیران ہو کہ کہ یہ میرے ملک میں پیش آیا‘‘۔سلمان خورشید پہلے مرکزی وزیر تھے،جنہوں نے اجتماعی عصمت ریزی کے اس واقعے پرنہ صرف اعتراف کیا بلکہ معافی بھی طلب کی۔ 2015میں کئی طالبات نے اس کیس کو اس وقت نئی جلا دی جب انہوں نے ریاستی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت ایک اپیل دائر کرکے کیس کی سر نو تحقیقات کے حق میں آواز بلند کی اور بعد میں سپرئم کورٹ تک پہنچایا ۔27جون 2016کوسانحہ کنن پوشپورہ کی تحقیقات میں روک لگوانے کیلئے فوج نے وزارت دفاع کے ذریعے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیاہے ۔ 18جون 2013کو جوڈیشل مجسٹریٹ کپوارہ نے پولیس کو یہ ہدایت دی تھی کہ کنن پو ش پورہ میں پیش آئے اجتماعی آبرو ریزی اور ٹارچر کے واقعہ کی تحقیقات عمل میں لائی جائے ۔ریاستی ہائی کورٹ نے کنن پوش پورہ سانحہ کی تحقیقات کے احکامات صادر کئے جانے سے متعلق کپوارہ کی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے جبکہ دسمبر 2014میں ریاستی سرکار نے ہائی کورٹ فیصلے کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں چلینج کیا تھا اور عدالت کی طرف سے متاثرہ خواتین کو معاوضہ فراہم کرنے سے متعلق ہدایت پر روک لگانے کی درخواست کی تھی ۔13مئی 2016کو فوج کی طرف سے تازہ پٹیشن سپریم کورٹ آف انڈیا میں دائر کی گئی اور اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے اس مرتبہ عرضی کی سماعت عمل میں لاتے ہوئے دو الگ الگ عرضیوںکو یکجا کرکے سماعت آگے بڑھانے کا فیصلہ لیا ۔فوج کی طرف سے مرکزی وزارت دفاع نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا ہے۔4دسمبر2017کو سپریم کورٹ نے جموں کشمیر حکومت کی طرف سے ریاست ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سماعت کی اپیل کو منظوری دی۔جسٹس جے چلشمیور اور جسٹس سنجے کشن کول پر مشتمل بینچ نے کہا کہ تمام عبوری احکامات جاری رہیں گے،جبکہ ریاستی حکومت کی طرف سے ہائی کورٹ کے مختلف احکامات سے متعلق سماعت کو تیز کرنے کی ہدایت دی۔ ریاستی ہائی کورٹ کی طرف سے کنن پوشہ پورہ کے متاثرین کو معاوضہ دینے اور تحقیقات پر بھی مسلسل حکم امتناعی جاری رکھی۔