سبزار احمد بٹ
عثمان کے گھر میں آج خوشی کا ماحول تھا۔مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی تھیں۔ جن رشتوں کا آج تک کہیں اتہ پتہ نہیں تھا آج وہ رشتے بھی مبارکبادی کے لئے آئے تھے ۔ کچھ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر کار عثمان کے گھر ایسی کس خوشی نے جنم لیا ہے . دکان پر بیٹھے غلام قادر سے آئے ہوئے کسی گاہک نے پوچھا.
قادر چاچا عثمان کی نوکری لگ گئی کیا؟
لوگ تو مبارکبادی کے لئے جا رہے ہیں۔
پتہ نہیں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں ۔ عثمان تو باپ کے مرنے کے بعد اپنے بھائی بہنوں کو پالنے پونسنے میں لگ گیا۔ اس نے تعلیم ہی مکمل کہاں کی تھی جو نوکری لگ جاتی۔
عثمان دراصل ایک مزدور سلامت علی کا بیٹا ہے۔ سلامت علی محلّے میں ایک جھونپڑی میں رہ رہا تھا۔ ارد گرد کے سبھی لوگ فلک بوس عمارتوں میں رہتے تھے ۔ انہیں یہ جھونپڑی ایک بد نما داغ لگتی تھی۔ سلامت علی کس غربت میں زندگی گزار رہا تھا انہیں اس بات کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا۔ مدد کرنا تو درکنار اُن کا بس چلتا تو وہ اس جھونپڑی کو بلڈوزر سے اٹھا کر کسی گندی نالی میں پھینک دیتے اور اپنے صحن کو اور چوڑا کرتے ۔ سلامت علی کے چار بچے تھے ۔ مزدوری کے ساتھ ساتھ جھوپڑی کے قریب ہی ایک دکان بھی لگائی تھی۔ جس میں بیوی بیٹھتی تھی اور شام کے وقت خود بھی بیٹھتا تھا۔ اچھی کمائی ہونے لگی ۔ جس وجہ سے کچھ حاسد لوگ حسد کی آگ میں جلنے لگے۔ سلامت نے پیسے بچا بچا کر اس جھوپڑی کی جگہ ایک چھوٹا سا مکان بنایا۔ کچھ رقم ادھار بھی لی تھی۔ پڑوس میں رہنے والے امیر زادوں کو غریب کا مکان بنانا اور ترقی کرنا راس ہی نہیں آیا۔ وہ اسے ہمیشہ اپنی جوتیوں میں ہی دیکھنا چاہتے تھے. اس لئے وہ تعمیراتی کام میں رکاوٹیں پیدا کرتے رہے ۔ غیر تو غیر اپنے چچا چوہدری صاحب کو بھی ان کا جھوپڑی سے نکلنا اچھا نہیں لگا ۔جب کچھ نہ بن سکا تو چوہدری صاحب نے یہ کہہ کر کھڑکیاں ڈالنے سے روک دیا کہ یہ میرا آنگن ہے اس کی طرف تم کھڑکیاں نہیں ڈال سکتے ہو۔ سلامت علی گاؤں کے چند لوگوں کے پاس اپنی فریاد لے کر گیا لیکن کہتے ہیں نا جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ چوہدری چونکہ اثرورسوخ والا شخص تھا اس لئے سب لوگ یا تو خاموش رہے یا معمولی فائدے کے لئے چوہدری کی وکالت کرنے لگے۔ بیچارا اپنی شکایت لے کر تحصیلدار صاحب کے پاس گیا اور تحصیلدار صاحب نے یقین دہانی کرائی کہ چند دنوں میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ لیکن چوہدری چونکہ اثرورسوخ والا آدمی تھا تو اس نے وہ کیس ایسے غائب کروایا جیسے کیس تھا ہی نہیں ۔ ان دنوں سلامت علی کا بیٹا عثمان آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ادھر سلامت علی کو رہنے کی جگہ نہیں تھی اور بارشوں کا موسم تھا ۔ لہذا اس نے عارضی طور پر کھڑکیوں والی جگہ اینٹوں سے بند کی اور مکان کا کام آگے بڑھایا۔ لیکن اس مکان میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔ بچے ٹھیک طرح سے پڑھ لکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ سولر وغیرہ لانے کی اوقات تو تھی ہی نہیں جس سے مکان کا اندھیرا پن دور کیا جاسکتا ۔ ایک طرف سے ارد گرد کی فلک بوس عمارتیں اور دوسری طرف سے مکان میں کھڑکیوں کا نہ ہونا سلامت علی کے لئے درد سر بنا ہوا تھا. چوہدری نے سلامت علی کی روشنی پر پہرہ بٹھا رکھا تھا اس کا بس چلتا تو وہ ہوا کو بھی اس گھر میں داخل نہیں ہونے دیتا ۔
کسی کے مشورے پر سلامت علی نے چوہدری کے خلاف تھانے میں رپورٹ لکھوائی لیکن تھانے کا منشی چوہدری صاحب کا بھائی تھا اس لئے یہاں بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ سلامت علی سخت پریشان تھا کیونکہ نہ اس کے پاس کسی کی سفارش تھی اور نہ حاکموں کی جیب گرم کرنے کے لئے رشوت ۔ اور دوسری طرف مزدور پیشہ آدمی تھا۔ مزدوری پر نہ جاتا تو بچے بھوکے مر جاتے۔ ایک دن مزدوری پر گیا تو ٹھیکیدار کو روتے روتے اپنی روداد سنائی تو ٹھیکیدار نے عدالت جانے کا مشورہ دیا ۔
جناب عدالت جا کر کیا کروں گا ؟ میری کون سنے گا۔ میں غریب آدمی ہوں ۔ وہ عدالت بھی خرید لیں گے۔ ان کے پاس دولت ہے اثرورسوخ ہے۔
نہیں نہیں ۔قانون سب کے لئے برابر ہے۔ عدالت میں آپ کو انصاف ضرور ملے گا۔
جناب سنا ہے عدالت میں کافی وقت لگتا ہے اور بہت زیادہ فیس دینی پڑتی ہے وکیلوں کو۔
ہاں ہاں وقت لگے گا لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ تمہیں انصاف ضرور ملے گا۔ اور اس کے بغیر کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ رہی بات پیسوں کی تو پیسے میں ایڈوانس میں دوں گا۔
سلامت علی نے گھر آکر ایک وکیل سے بات کی اور یہ معاملہ عدالت میں لے گیا۔ تاریخ پر تاریخ ملتی رہی اور چار سال تک سلامت علی یہ کیس لڑتا رہا۔ اسی دوران سلامت علی کا انتقال ہو گیااور گھر کا سارا بوجھ عثمان پر آن پڑا۔ عثمان نے پڑھائی چھوڑ دی اور مزدوری پر لگ گیا۔ اس دوران چوہدری صاحب کے حوصلے اور بھی بلند ہو گئے اور وہ یتیم بچوں پر ظلم کے ہتھوڑے برساتا گیا۔ عثمان کیس بھی لڑتا رہا اور اپنے بھائی بہنوں کی تعلیم و تربیت پر بھی دھیان دیتا رہا۔ اور اس دوران عثمان نے اپنی دو بہنوں کی شادی بھی کرا دی۔ چوہدری کو جب کچھ نہ سوجھا تو ان لڑکیوں کو بدنام کرنے میں بھی کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی۔ لیکن عثمان ان تمام تر آزمائشوں اور مصیبتوں کے آگے چٹان کی طرح کھڑا رہا۔ اس دوران چھوٹے بھائی کی نوکری بھی لگ گئی۔ آج بارہ سال ہو گئے اس کیس کو لڑتے ہوئے ۔
آج دن کے تین بجے عدالت نے اس کیس پر حمتی فیصلہ سنایا۔ عدالت نے صاف طور پر ہدایات جاری کر دیں کہ سلامت علی کے بیٹے کو اپنے مکان میں کھڑکی لگانے کی اجازت دی جائے۔ پولیس کے نام حکم صادر کر دیا گیا کہ سلامت علی اور اس کے بیٹے کو یہ کیس لڑنے کے دوران جو خرچہ آیا وہ چوہدری سے وصول کیا جائے۔ یہ فیصلہ صادر ہونے کے بعد وہ لوگ بھی عثمان کے گھر مبارکبادی دینے گئے جنہوں نے اگر چُپی نہ سادھی ہوتی تو عدالت جانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
���
اویل نور آباد،کولگام