افتخارخان
شہر ِسرینگر میں آوارہ کُتّوں کی بھر مار ہے، ہر جگہ ان آوارہ کُتّوں نے اپنا دبدبہ قائم کردیا ہےاور کھلے عام اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں،جس کے نتیجے میں رات تو کُجا ،دن کے اُجالے میں بھی لوگوں کا چلنا پھرنا انتہائی دشوار بن چکا ہے،خصوصاً کمسن اسکولی بچوں اور خواتین کے لئے کسی ضروری کام سے گھر سے باہر نکلنا تک اپنے زندگی کو خطرے میںڈالنےکے مترادف بن گیا ہے،جوکہ ایک تشویش ناک امر ہے۔گذشتہ ایک دو دہائی سے شہری عوام آوارہ کُتّوں کی بڑھتی ہوئی بھرمار اور اُن کی طرف سے ہونے والی خونچکان وارداتوں سے انسانی جانوں کو پہنچنے والے نقصانات کے متعلق حکومتوں اور متعلقہ محکمہ کو آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں لیکن کوئی بھی اتھارٹی ،حکام یا ذمہ دارعہدیداراس حساس مسئلہ کی جانب سنجیدہ غور و فکر کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کررہا ہے۔افسو س صد افسوس کہ انسان ہوکر بھی وہ شائدانسانی درد کو سمجھنے سے قاصر ہوچکے ہیںاور شیش محلوںکی رونق و جگمگاہٹ میں کھوئے ہوئے ہیں۔حکومت اور متعلقہ محکمہ کی عدم دلچسپی،غفلت اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے سبب اب شہر سرینگر میں آوارہ کُتّوں کی ہڑبونگ اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگوں کے لئے نہ رات کی نیند میسر ہورہی ہےاور نہ دن کا قرار نصیب ہوتا۔
کُتّے اب اتنے بے قابو ہوگئے ہیں کہ لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے بھی خوف نہیں کھاتے،اور انسانوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ابھی گزشتہ دنوں ہی کتوں نے بٹہ مالوہ میں ایک بچے کاتعاقب کیااوروہ چیختے چلاتے ہوئےایک ڈرین میں گرگیا، جس کی وجہ سے ہسپتال پہنچ گیا جہاں اُس کی موت ہوگئی اور یوں اس کے کنبے والوں پرقیامت ٹوٹ پڑی۔ یہ کوئی پہلی وارادت نہیں ،ایسی کئی وارداتیں شہر و دیہات ہوچکی ہیں ،جن میں انسانی جانیں تلف ہوچکی ہیں۔ایسے بے شمار واقعات کی المناک داستانیں اخباروں میں آچکی ہیں بلکہ بدستور آرہی ہیں، جہاں کتوں نے متعددافراد خصوصاً کمسن بچوںکوچھیڑ پھاڑ کرانہیں موت کے دہانے تک پہنچادیا ہے۔گزشتہ سال کتوں نے شہرکے معروف سیاحتی بلیوارڈروڈ پرمتعددسیاحوں کو بھی کاٹ کھایا اورانہیں ہسپتال کی راہ دکھائی۔شہرکاایساکون سا کونا کھدرا ایسا ہے جہاں کتوں کی بھرمار نہیں ہے۔شہر خاص جسے ڈاون ٹاون کے نام بھی پکارتے ہیں ،میںکتوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہر مین سڑک،ہر ترسیلی سڑک ،ہر محلہ ،ہر گلی اور ہر کوچے میں کُتّے ہی کُتّے دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں۔لوگ یہ بھی الزم لگاتے ہیں کہ سمارٹ سٹی کی آڑمیں سول لائنز علاقوں کے کتوں کو پکڑ کر رات کے اندھیرے میں شہر خاص میں چھوڑا جارہا ہے۔ایسے ہی الزامات مختلف گائوں کے لوگ بھی لگارہے ہیں کہ شہری علاقوں سے کتوں کو گاڑیوں میںلادکر دیہاتوں میں ڈال جارہا ہے۔ ان الزامات میں کہاں تک سچائی ہے ،یہ تو حکومت ِ وقت کو ہی معلوم ہوگی۔البتہ ہر طرف آوارہ کتوں کی اس بھرمار کو دیکھ کر شہر سرینگر کواگر ’کتوں کا شہر‘کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ایک طرف یہاں ہر گلی نکڑ پر مساجد اور خانقاہیں ہیں تو دوسری اورکتوں کے ریوڈ نظر آتے ہیں،جنہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے شہریوں کاجینا دوبھرکردیا ہے۔در حقیقت حکومت شہرمیںکتوں کی بھرمارکاتدارک کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔اگرچہ بارہا اس تعلق سے حکومت نے بیان جاری کئے ہیںکہ اس وباء کا تدارک کیا جائیگا۔کبھی کتوں کی نس بندی کرنے کااعلان کیا گیا تو کبھی کتوں کیلئے پھاٹک قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔تاہم زمینی صورتحال میںان بیانات سے کوئی بدلاؤ نہ آیا اور نہ آنے کی صورت حال نظر آرہی ہے،جبکہ حالات روز بہ روزبد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں۔ظاہر ہےاس سلسلے میں حکومت نے تواتر کے ساتھ تغافل،سُستی اور بے دلی کامظاہرہ کرتے ہوئے کوئی بھی کارگر اقدام نہیں کیا ہے،جس کی وجہ شاید یہی ہے کہ حکومت جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی کچھ نام نہاد تنظیموں کے دباؤ میں آگئی ہے، جنہیں انسانوں سے زیادہ حیوانوں سے اُنس ہے۔ یہ کہنابے جانہ ہوگا کہ یہاں انسانی حقوق کو جانوروںکے حقوق کے تحفظ کی خاطر قربان کیاجارہا ہے۔کئی برس قبل جب جموں کشمیرایک ریاست ہواکرتی تھی،تو اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران وزیرمملکت برائے مکانات وشہری ترقی نے اعتراف کیا تھاکہ شہر سرینگر میں ایک لاکھ کتے دندناتے پھر رہے ہیں ۔ تب سے ان کی تعدادمیں بلاشبہ کئی گنااضافہ ہواہوگا۔یہ ایک کثیر تعداد ہے اور انسانی جانوں کو ان سے خطرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔عام لوگوں کے علاوہ کمسن اسکولی بچے اکثر ان کتوں کے حملوں کاشکار ہوتے ہیں۔صبح سویرے کوچنگ مراکز جانے والے طلباء بھی ان کے نشانے پر ہوتے ہیں۔سماج کا سنجیدہ فکر طبقہ اگرچہ کتوں کی کثیر تعداد کی ہڑبونگ کیخلاف ہمیشہ آوازبلندکرتا رہا لیکن حکومت کے کانوں جوں تک نہیں رینگتی۔حکومت کشمیر ایک منفرد سیاحتی مقام کے طور بیرون ریاست پیش کرنے سے نہیں تھکتی ہے لیکن جو یہاں کے عام لوگوں کا مسئلہ ہے اور جس کے شکار یہاں آنے والے سیاح بھی ہوسکتے ہیں ،اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔یہ وقت ہے کہ حکومت خواب غفلت سے بیدارہوکر اس وباء کو جڑ سے اُکھاڑنے کیلئے اقدام کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلائے۔اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے حکومت کو کوئی منصوبہ ترتیب دینا چاہئے۔اگر حکومت عوام کو کتوں سے بچانہیں سکتی ہے تو یہ کیسے کسی بڑی آفت سے عوام کو تحفظ فراہم کرسکے گی؟اس مقامی مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اُسے مرکزی حکومت کے امداد کی نہیں بلکہ مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔انتظامیہ کے افسراں اخبارات میں اپنی تصاویر چھپوانے اور شہرت کی غرض سے سرینگر کے کونے کھدروں جاکر وہاں ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیتے ہیں ۔مگر ان میں وہ احساس ذمہ داری ہی نہیں ہے کہ وہ جن لوگوں کی کے مسائل کوحل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کاسب سے بڑامسئلہ ا س وقت شہر میں لاتعداد کتے ہیں ۔اگر یہ لوگ کتوں کامعمولی مسئلہ حل نہیں کرسکتے تو یہ کیسے بڑے عوامی مسائل کو حل کرنے کا دم بھرتے ہیں؟