نامساعد حالات کے پیش نظرجموںوکشمیرکے موجودہ تعلیمی نظام میں نجی کوچنگ سنٹروں کی اہمیت وافادیت روایتی تعلیمی اداروں سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ۔ایک زمانہ تھا جب جموںوکشمیر میں کوچنگ کے لفظ سے لوگ آشنا ہی نہیں تھے اور ایک مخصوص طبقہ کے لوگ ہی اپنے بچوں کا ٹیوشن کرواتے تھے ۔اس زمانے میں عمومی طور ٹیوشن کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی کیونکہ تعلیم و تعلم کا نظام انتہائی عمدہ تھا ۔حد تو یہ ہے کہ اُس وقت نجی سکولوں کا بھی اتنا چلن نہیں تھا اور بیشتر بچے سرکاری سکولوں میں ہی تعلیم حاصل کرتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب اساتذہ کو قوم کے معماروں کے طور جانا جاتا تھا اور سماج میں انہیں انتہائی عزت کی نگاہوں کی دیکھا جاتا تھا کیونکہ اُس وقت اساتذہ بھی اپنے پیشے کو کمائی کے ذریعہ کے طور نہیں بلکہ مشن کے طور لیتے تھے اور وہ ایک مشن کے تحت بچوں کو پڑھاتے تھے ۔
آج کل انتظامی ڈھانچے میں جو اعلیٰ آفیسران موجود ہیں ،وہ کسی نامی گرامی نجی سکول کے فارغ نہیں بلکہ عام سرکاری سکولوں سے آئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کا لوہا منوایا لیکن1990کے بعد جونہی حالات خراب ہوئے تو ہمارے سرکاری ملازمین پر آرام طلبی کا بھوت سوار ہوگیا۔ہڑتالوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملازمین کاہل طبیعت بن گئے اور وہ اکثر سرکاری اداروں کی بجائے اپنے گھروں میں بیٹھنے کو ہی ترجیح دیتے تھے ۔اس صورتحال کے پیش نظر وادی کا تعلیمی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا اور تعلیمی ادار ے تقریباً مفلوج ہوکر رہ گئے۔طالب علموں کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے تجارت کا ایک آسان طریقہ کھوجا گیا جس کے تحت پورے جموںوکشمیر میں ہر گلی کوچے میں کوچنگ مراکز کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ان کوچنگ مراکز میں طلاب کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے وعدے کئے گئے ۔گوکہ ابتدائی ایام میں کسی حد تک ان مراکز میں طلاب کے ساتھ انصاف کیا گیا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا۔یہ ادارے تجارتی اداروں میں تبدیل ہوتے گئے اور کوچنگ کے نام پر یہاں ایسے مراکز کی ایسی وبا پھیل گئی جو رکنے کا نام نہیں لیتی ہے ۔ان مراکز میں طالب علموں کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر انہیں دو دو ہاتھوں لوٹا جانے لگا۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک استاد کیلئے ایک کلاس روم میں طالب علموں کی زیادہ سے زیادہ تعداد تیس مقرر کی گئی ہے لیکن ان مراکز میں بیک وقت سوسے زیادہ طلاب کو لیکچر دئے جاتے ہیں اور اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ اساتذہ صاحبان پبلک ایڈرس سسٹم کا استعمال کرکے اپنی بات بچوں تک پہنچاتے ہیں۔اب خود ہی اندازہ کیجئے کہ ایسے مراکز میں اساتذہ پڑھائیں گے کیا اور بچے سیکھیں گے کیا؟۔نہ کوئی باز پرسش ،نہ ہوم کا کوئی معقوم انتظام ،بس چند ریڈی میڈ تعلیمی نسخوں کے عوض طلاب سے ہزاروں روپے اینٹھے جارہے ہیں۔تجارت کے اس آسان طریقہ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہر سال سرما شروع ہوتے ہی مقامی اخبارات میں ایسے اداروں کے داخلہ اشتہارات کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے جہاں طلاب کو لبھانے والی چیزوں کا استعمال کرکے انہیں ایسے مراکز کی جانب راغب کیا جارہا ہے ۔
سرکار نے دیر سے سہی لیکن جب اس ناسور کا احساس کیا تو کوچنگ مراکز کیلئے قوانین وضع کئے گئے جن کے تحت ان کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی اور واضح کیا گیا کہ سکولی اوقات کے دوران کوئی بھی کوچنگ سنٹر کھلا نہیںرہنا چاہئے ۔نیز کئی اور پیمانے بھی مقرر ہوئے جن سے ایسے مراکز کے معیار کو جانچا جاسکتا تھا جبکہ فیس کے حوالے سے بھی حدود مقرر ہوئے لیکن حسب روایت یہ قوانین کاغذی گھوڑے ثابت ہوئے اور حکم نواب تادر نواب کے مصداق ان قوانین کا اطلاق ڈائریکٹوریٹ آف سکول ایجو کیشن تک ہی محدودرہا اور یہ کوچنگ مراکز اپنی مرضی کے مطابق طلاب کو دودوہاتھوں لوٹتے رہے ۔اب شاید محکمہ تعلیم کی نیند ٹوٹ گئی ہے اورمحکمہ تعلیم نے وادی میں غیر قانونی طور پر قائم کئے گئے کوچنگ سینٹروں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لانے کا اعلان کرتے کہا کہ وادی کے طول و ارض سے انہیں یہ شکایتیں مسلسل طور پر موصول ہو رہی ہے کہ پوری وادی میں غیر قانونی طور پر کوچنگ سینٹر قائم کئے گئے ہیں جہاں تعلیم کے نام پر طلباء کو دو دو ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ محکمہ نے کہا ہے کہ غیر تسلیم شدہ کوچنگ سینٹروں کو نہ صرف سربمہر کیا جائیگا بلکہ منتظمین کے خلاف قانونی کاروائی بھی کی جائیگی۔ہم محکمہ تعلیم کے حکام کو بصد احترام گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ اُن کے یہ انتباہ سننے میں تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن جب تک قول کے ساتھ عمل نہ ہو ،یہ بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں اور اس طرح سے نہ صرف محکمہ تعلیم کی اعتباریت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے بلکہ اُس شخص کی اعتباریت بھی دائو پر لگ جاتی ہے جو سماج سے کوئی وعدہ کر جائے ۔حکام کی نیت پر قطعاًشک نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن فقط نیت صاف ہونے سے یہ بلا ٹلنے والی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے عزم صمیم اور ہمت مرداں کی ضرورت ہوتی ہے اور جب ہی کمر بستہ ہوجائیں گے ،اُسی صورت میں اس وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے ورنہ یہ وبا مزید بھیانک روپ اختیار کرسکتی ہے اورمعیاری تعلیم فراہم کرنے کے نام پر قائم یہ تجارتی ادارے طلاب کی بے بسی کا فائدہ اٹھاکر انہیں لوٹتے رہیں گے اور وہ بھی بحالت مجبوری لٹتے رہیں گے ۔