گزشتہ دنوں ریاست کے وزیر تعلیم سید الطاف بخاری نے وادی میں قائم سبھی کوچنگ مراکز کو تین ماہ تک کے لئے مقفل کئے جانے کا حکم صادر فرمایا ۔ در اصل یہ حکم نامہ طلباء کی طرف سے ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا توڑ کر نے کے لئے صادر ہوا ہے۔ قارئین کرام اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ طلباء و طالبات کئی دن سے کھٹوعہ کی ۸؍ سالہ لڑکی آصفہ کے ساتھ پیش آنے والے بھیانک واقعہ اور اس میں ملوث ملزموں کو انسانیت داغدار و شرمسار کرنے والے کے خلاف مشتعل ہیں اور سڑکوں پر آکر اُن کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ حکومت بر سر احتجاج طلباء کو نرمی سے سمجھا ئے بجھائے اورانہیں اس بات کا یقین دلائے کہ آصفہ کے قاتلوں کو کیفرِ کردارتک پہنچایا جائے گا، وزیرتعلیم نے اس کے بر عکس طلباء کے ہی خلاف کاروائی کرنے کی کوششیں تیز کیں۔ یہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ احتجاج کے تسلسل سے سٹوڈنٹ کمیونٹی کا کوئی بھلا نہیں ہورہا لیکن یہ بھی صحت مند طریقہ نہیں کہ بچوں کے لئے تعلیم و تربیت کے ہی راستے بند کر دئے جائیں۔ کوچنگ مراکز کو بند کرنے کے سلسلے میں جاری کیا گیا بیان اور بچوں کے تئیں وزیرتعلیم کا رویہ اپنے آپ میں متضاد ہے ۔بقول وزیر تعلیم کوچنگ مراکز بچوں کے لئے Distraction Point ہیں جو بچوں کو اصل تعلیم و تدریس دور کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اسکولوں میں بہتر تعلیم دی جانے کی کوشش کی جائے گی اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو کوچنگ کا انتظام بھی اسکولوں میں ہی کیا جائے گا جس سے وزیرموصوف کی دانست میںکوچنگ مراکز کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔ وزیرتعلیم جہاں ایک طرف بچوں کے مستقبل کا رونا روتے نظر آرہے ہیں، وہیں دوسری طرف وہ بچوں کو Rowdy کہہ کر ان کے لئے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ وہ والدین کو صلاح بھی دے رہے ہیں کہ بچے ایک پریشانی سے دوچار ہیں جس کے لئے ان سے بات کرنے کی ضرورت ہے یعنی انہیں کونسلنگ کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی کوچنگ مراکز ، کالج اور اسکول بند کر واکے طلبہ کی پریشانیوں میں حد درجہ اضافہ بھی کر رہے ہیں۔
اگر چہ تازہ حکم نامہ طلباء کی طرف سے کئے جارہے احتجاج اور پتھراو کے تناظر میں جاری ہوا لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوچنگ مراکز کو پہلی بار بند نہیں کیا گیا بلکہ ماضی قریب میں بھی کوچنگ سینٹرز کے خلاف عجیب عجیب سے ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ کبھی سرکاری اساتذہ کو کوچنگ سینٹرز میں پڑھانے پر پابندی عائد کی گئی اور کبھی بچوں کو سُپر 50؍ کے نام پہ کوچنگ سینٹروں سے دور رکھا گیا۔یہاں تک کہ لا اینڈ آرڈر کو بحال رکھنے کے لئے سوپور سمیت کئی قصبہ جات میں مقامی انتظامیہ نے بھی وقتاََ فوقتاََ کوچنگ سینٹرز کو کبھی چند روز کے لئے تو کبھی چند ماہ کے لئے مقفل کیا۔ لہٰذا یہ پہلی بار نہیں کہ وادی میں کوچنگ مراکز مقفل ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی میں کوچنگ مراکز Distraction Point ہیں؟ کیا واقعی یہ بچوں کو خراب کرنے میں ملوث ہیں ؟
کوچنگ مراکز صرف وادی میں نہیں بلکہ پورے ملک میں موجود ہیں ، یہاں تک کہ ترقی یافتہ ریاستوں میں بھی قائم ہیں ۔ ان کا بنیادی مقصد بچوں کو اس سطح کی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جو اسکولوں میں کئی وجوہات کی بناء پر ممکن نہیں ۔ دوسری اہم وجہ جو بچوں کو کوچنگ سینٹروں کی جانب رجوع کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ ہے نصاب کی تکمیل ،جو امن شکن حالات میں اسکولوں میں ممکن نہیں۔ اسکولوں میں چھٹیوں کی وجہ سے پہلے ہی کام کاج کا وقت سکڑتا چلا جا رہا ہے جب کہ اب سرکار بھی اسکولوں کو زیادہ تر بند ہی رکھتی ہے۔ اکثر اوقات یہ قدم بھی بظاہر نامساعد حالات کے ہی پس منظر میں اٹھایا جاتا ہے۔ لہٰذا کوچنگ سینٹر Distraction point نہیں بلکہ بے سرو پا تعلیمی نظام میں بچوں کے لئے واحد سہارا ہیں۔ اگر کوچنگ سینٹر کا قائم کیا جانا اتنا ہی منفی ہے تو سب سے پہلے انہیں ایسی ریاستوں میں قائم نہیں ہونا چایئے تھا جن میں تعلیمی نظام ہماری ریاست سے کئی درجہ بہتر اور منظم ہے۔ مثال کے طور پہ کوٹہ راجستھان میں قائم کوچنگ مراکز ملک بھر میں مشہور ہیں جو NEET,JEE, وغیرہ مقابلہ جاتی امتحانات کی کوچنگ کے علاوہ Public Service aspirants کے لئے بھی امید کی ایک کرن ہیں۔ اسی طرح دہلی اور کئی دیگر ریاستوں میں بھی بڑے بڑے کوچنگ مراکز قائم ہیں جہاں ملک بھر کے طلباء کے ساتھ ساتھ کشمیر کے بعض بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان ترقی یافتہ ریاستوں اور Metropolitan شہروں میں حکومت کو کوچنگ سینٹرز میں اگرکوئی برائی نظر نہیں آتی تو نا معلوم وجوہ کی بناپر کیوں ہماری بے چاری سرکار کو کوچنگ مراکز کے نام سے ہی چڑ ہے؟ نہ جانے کیوں ہمارے تاناشاہ حاکموں کوچنگ مراکز ،کالج اور اسکولوں کو ہمیشہ بند کرنے کے تاک میں لگے رہتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ اپنے بچوں کو ریاست سے باہر بڑے بڑے تعلیمی اداروں میںبھجوا کر کشمیر کے تعلیمی اداروں، کالجوں ، اسکولوں اور کوچنگ مراکز کو ایک منصوبہ بند طریقے پر مفلوج کر ر ہے ہیں؟ شایدوزیرتعلیم سید الطاف بخاری صاحب اس بات سے بالکل واقف و با خبر ہوں گے کہ ان کا دعویٰ کہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کو اتنا فعال بنایا جائے گا کہ کوچنگ کی ضرورت نہیں پڑے گی ، ایک سنہرا سپناہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کی حکومت نے اسکولوں اور کالجوں میں درس و تدریس کا کام باقاعدگی کے ساتھ کبھی ہونے ہی نہیں دیا۔ کاش حکومت تعلیم کو سیاست زدہ نہ کرتی !۔
فون 9906607520