عبدالعزیز
چند مہینوں سے اخباروں میں بحث جاری ہے کہ مسلم طلبا کیلئے کون سا ذریعہ تعلیم مناسب ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ مضمون تشنہ ہی رہ گیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف مسلم طلبا یا ایسے بچوں کا نہیں جن کی مادری زبان اردو ہے بلکہ یہ ایک بنیادی ہمہ گیر تعلیمی مسئلہ ہے جس کا راست تعلق والدین اور بچوں سے ہے، چاہے ان کی مادری زبان کچھ ہی کیوں نہ ہو۔
’’بچہ مادری زبان ،ماں کے دودھ کے ساتھ پیتا ہے‘‘۔(ذاکر حسین)
یہ زبان ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ بچہ کے جسم و جان کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ فطرت کی ایک دین ہے۔ ہر بچہ مادری زبان جس تیزی کے ساتھ ابتدائی عمر میں سیکھتا ہے، باقی ساری عمر کوئی اور زبان اس تیزی کے ساتھ نہیں سیکھ پاتا۔ ابتدا میں تو وہ چیزوں کو دیکھتا ہے اور پھر ان کے نام سے واقف ہوتا ہے۔ پانی، روٹی، انڈا، اشیاء کا مشاہدہ اور زبان کی علامت جب اس شئے کے ساتھ جڑ جاتی ہے تو اس کی ماہیت اور خصوصیت سے بھی وہ واقف ہوجاتا ہے۔ مٹھائی کے نام کے ساتھ اس کے مزہ کا بھی احساس کرنے لگتا ہے۔رفتہ رفتہ وہ غیر مشاہد باتوں کو بھی سمجھ جاتا ہے جن کا تعلق سماج میں اقدار، تہذیب و روایات سے ہوتا ہے۔ سچ، جھوٹ، ہمدردی، محبت، دھوکہ وغیرہ ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کا تعلق لوگوں کے عمل سے ہوتا ہے۔ پھر وہ رفتہ رفتہ زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں، شعر و شاعری اور ادب سے واقف ہوجاتا ہے۔ اگر اس میں صلاحیت ہو تو ادب کے مختلف شعبوں میں کمال پیدا کرتا ہے۔ ان سارے مراحلے کے طے کرنے میں بچہ کو بڑا ہونے تک کسی خاص پریشانی اٹھانی نہیں پڑتی اور نہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سارے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچہ کی تعلیم صرف مادری زبان میں ہونی چاہئے۔ اگر یہ ماہرین تعلیم اس بات پر متفق بھی نہ ہوتے، ہر صاحب سمجھ کا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ مادری زبان ہی میں تعلیم نہایت آسان اور موثر طور پر دی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد کوئی اور ذریعہ تعلیم لیپا تھوپی اور مصنوعی رنگ میں ہوتی ہے، چاہے اس ذریعہ تعلیم کی قیمت مارکیٹ میں کتنی ہی اونچی ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر زبان کی گود اس قوم کی تہذیب، روایات، مذاق اور شائستگی سے مالا مال ہوتی ہے جو اس زبان کی نصابی کتب میں صاف نظر آتے ہیں۔ تیلگو کی کتاب میں رام سیتا کے قصے، دیومالائی کہانیاں ضرور ہوں گی۔ ان کتابوں میں ہارون رشید کے دربار کے قصے، مولانا روم کی کہانیاں، شیخ سعدی کے لطیفے ڈھونڈنا عبث ہے۔ اسی طرح انگریزوں کی قدامت پسندی، گہری حس مزاح، طور و طریقہ اور ان کی مجلسی کا عکس انگریزی کتابوں میں ضرور ہوگا۔ بعض باتیں اور جملے ان کتابوں میں عجیب و غریب معلوم ہوں گے، جیسے Big Pig ، یہ جملہ اپنے ماحول اور مذہبی رنگ سے بہت غیر مانوس ہے۔ ایک زمانہ میں A سے Apple دیہات کے بچے پڑھتے تھے اور سیب کی شکل و صورت ،اس کے مزے سے کوئی واقف نہیں تھا۔ بچے تو کیا ان کے بڑے نے بھی سیب نہیں دیکھا تھا۔ ہمارے ’بی اے‘ کے کورس میں ایک مضمون ’’سرروجرڈی کاورلی‘ میں ایک جملہ یہ تھا: فیشن کئی مرتبہ بدلتا گیا لیکن اس سر روجر (نائٹ یا نواب) کا کوٹ نہیں بدلا اور ہم اس زمانے میں سوچتے رہ گئے کہ آخر فیشن کیا چیز ہے اور اس کوٹ کے نہ بدلنے کی اہمیت کیا ہے جبکہ ہندستان میں کوٹ کسی کو میسر نہیں۔ گویا یہ بات آسانی سے حلق سے نہیں اترتی تھی، لیکن یہ جملہ ہر امتحان میں حوالہ متن کے تحت پوچھا جاتا۔ یہ بات کچھ ایسی ہے جسے اکبر الہ آبادی نے بہت خوبی سے ظاہر کیا ہے۔
اصہ منصور سارا سن کے بول شوخ مس
کیا جاہل لوگ تھا پاگل کو پھانسی کیوں دیا
اس شوخ مس کا کوئی قصور نہیں تھا، وہ لاکھ کتابیں پڑھ جائے، فلسفہ وحدت الوجود اس کی اہمیت، مذہبی روایات و عقائد تک نہیں پہنچ سکتی۔ جو بات اس شوخ کیلئے بہت مشکل ہے وہ ہر اس بچہ کیلئے مشکل ہے جو اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں تعلیم پاتا ہے۔
اس تمہید کے بعد اب اصل مسئلہ کی طرف آئیے۔ اردو ذریعہ تعلیم کے مسئلہ کو حقائق کی دنیا میں سوچنا اور سمجھنا چاہئے۔ ملک کی تقسیم کے ساتھ زبان کی بھی تقسیم ہوگئی۔ اردو پاکستان کی، ہندی ہندستان کی سرکاری اور قومی زبان ہو گئی۔ سرکار کی زبان کا اثر سارے ملک اور لوگوں پر پڑتا ہے۔ چارو ناچار لوگ قومی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں، جو نہیں سیکھیں گے وہ سخت گھاٹے میں رہیں گے۔ یہ بات نہیں کہ ہم اردو کو نہیں چاہتے بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کو اس ملک میں سب کے ساتھ رہنا اور جینا ہے تو ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے جہاں پر مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا دشوار ہوچکا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ریاستی (مقامی) قومی اور انگریزی زبانوں کی اہمیت پر سرسری نظر ڈال لینا ضروری ہے۔
دستور ہند میں ریاستی زبانوں کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ہر ریاست کے لوگ اپنی زبان کو ترقی دینے کیلئے دل و جان سے لگ گئے ہیں اور مقامی زبانوں کو یونیورسٹی تک پہنچا چکے ہیں۔ مقامی زبان ہر ایک کو سیکھے بغیر چارہ نہیں کیونکہ یہ سرکار کی دفتری زبان ہے، اس زبان کو سیکھنا ہی نہیں بلکہ اردو داں طبقے کو اس میں مہارت بھی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندی چونکہ قومی زبان ہے، سنٹرل گورنمنٹ کے ہر شعبہ میں اس کا سکہ چلتا ہے، ہندی کا جبر غیر محسوس طریقے پر آپ ہر جگہ محسوس کریں گے۔ اس زبان کے دباؤ کے خلاف جنوبی ہند کی ریاستیں احتجاج بھی کرتی آئی ہیں لیکن اس کے باوجود ہندی سیکھے بغیر کام نہیں چلے گا۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ ہندی زبان کا پرچار صبح اور شام چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اردو کے بہت سے الفاظ اب ہندی میں بے تکلف جذب ہوچکے ہیں۔ جیسے خود اردو میں بہت سے الفاظ ہندی کے آچکے ہیں، اب اردو کا حاشیہ سکڑتا جارہا ہے۔ ممتاز دانشور جناب ہاشم علی اختر کے مطابق یہ اب ’’کانوں کی زبان‘‘ رہ گئی ہے۔ بول چال میں عام ہے لیکن لکھنے اور پڑھنے سے موجودہ نسل دور ہوتی جارہی ہے۔ معلوم ہوا کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں ایم اے اردو پرچوں کے جوابات طلبا دیوناگری رسم الخط میں لکھتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے آج سے پچاس برس بعد اردو کے پڑھنے لکھنے والے خال خال ہی رہ جائیں گے۔ انگلش میڈیم کے اسکولوں کی بہتات کچھ تو تجارتی اغراض کی وجہ سے ہے اور کچھ تو انگریزی زبان کی مسلمہ اہمیت کی وجہ سے۔ تعلیم ویسے آج کل انڈسٹری میں تبدیل ہوچکی ہے۔ تاجر وہی مال مارکیٹ میں لائے گا جس کی ما نگ زیادہ ہے۔ یہ کہنے کو تو بہت اچھی بات ہے کہ ہمارے مذہب و ثقافت کا اصل سرمایہ اردو زبان میں محفوظ ہے۔ اس لئے اردو داں اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھائیں، لیکن اکثر ایسا کہنے والے بھی اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں ہی میں پڑھاتے ہیں۔ انگریزی زبان کی اہمیت تو ایک بین الاقوامی زبان ہونے کی وجہ سے ہے۔ دوسرے یہ کہ سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیکل، انجینئرنگ سب اعلیٰ فنی علوم کا مخزن انگلش ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے انگریزی زبان میں مہارت حاصل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ دنیا کی اور زبانوں کے مقابل سب سے کم 26 حروف تہجی ہیں اور کوئی اچھی کتاب، مقالہ، ریسرچ کا کام دنیا کی کسی زبان میں شائع ہوجائے اس کا مستند ترجمہ پندرہ دن کے اندر اندر انگریزی میں آپ کو مل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کوٹھاری ایجوکیشن کمیشن نے انگریزی کو ’لائبریری زبان‘ کے نام سے اس کو مستقل حیثیت دی ہے۔
جب ہندستان آزاد ہوا تو چند ہندی پریمیوں کا وفد ہندستان کے مشہور رُڑکی انجینئرنگ کالج کے پرنسپل کے پاس پہنچا اور مطالبہ کیا کہ کالج میں ہندی میڈیم جلد سے جلد جاری کر دیں۔ پرنسپل اس کا جواب دیئے بغیر اس وفد کو کالج کے لائبریری ہال میں لے گئے جہاں فرش تا چھت ہزاروں کتابیں الماریوں میں لگی ہوئی تھیں اور کہاکہ آپ ان سب کا ہندی میں ترجمہ کر دیجئے پھر ہندی میڈیم شروع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ ان سب کتابوں کے ترجمے کیلئے پچاس برس بھی کافی نہیں ہوں گے اور اس عرصے میں اس سے زیادہ کتابوں کا انبار لگ جائے گا۔ ہندی پریمی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہوئے باہر نکل گئے۔ انگریزی زبان کے الفاظ دوسری زبانوں میں اتنے عام ہوچکے ہیں کہ اب ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم انگریزی الفاظ بے تحاشہ استعمال کرتے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر سائیکل ہی کو لے لیجئے۔ دیکھئے اس میں کتنے اردو کے اوزار ہیں۔ ٹائر، ٹیوب، رِیم، چَین، سیٹ، کیریئر، پائیڈل، ہینڈ، ہب، بیرنگ، اسٹینڈ، فریم، وال، ربر، بریک یہ سب انگریزی الفاظ ہیں۔ ہوسکتا ہے اردو کے چھرے اور گھنٹی ہوگی، ڈنڈا تو تیلگو ہے۔ کسی ماہر لسانیات کو صرف اسٹینڈ اور بریک کا ترجمہ اردو میں کرنے کیلئے کہئے تو معلوم ہوگا کہ اس میں کتنی پریشانی ہے۔ کسی صاحب نے ٹرین کا ترجمہ ’’تخت رواں‘‘ کیا تھا لیکن لوگوں کی زبان پر ریل ہی چلتی رہی۔ لوگ اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولوں میں نہیں داخل کرواتے ہیں کہ انھیں معلوم ہے کہ ان اسکولوں کا ریزلٹ ہر سال وہی تین چار فیصد رہتا ہے۔ ایسا حال کیوں ہوگیا ہے۔ ان وجوہات پر آئے دن ہر جگہ بحث ہوتی رہتی ہے لیکن ان باتوں کو دہراتے رہنے سے ہم وقت کے دھارے کو موڑ نہیں سکتے۔ ان حالات میں ہمارے لئے کون سا لائحہ عمل مفید ہوسکتا ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
(1 مسلمان طلبا ہوں یا اور کوئی لسانی اقلیت ہو، انھیں چار زبانی فارمولا اختیار کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے ہندی علاقہ کے لوگوں کیلئے یہ دو زبانی فارمولا ہے کیونکہ ہندی مادری زبان ہے پھر اسی ریاست کی قومی زبان بھی ہے۔ انھیں صرف ایک نئی زبان انگریزی سیکھنی ہے۔ جن لوگوں کی مادری زبان علاقائی زبان ہوگی ان کیلئے ہندی اور انگریزی سیکھنا ہوگا۔ اس طرح ان کیلئے سہ لسانی فارمولا ہے۔ اردو کیلئے چار فارمالا یوں ہوگا: مادری زبان اردو، علاقائی زبان …، قومی زبان ہندی، بین الاقوامی زبان انگریزی سیکھنا ضروری ہے۔
یہاں پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بچہ دو چار زبانیں بارہ برس کی عمر تک نہایت ہی آسانی سے سیکھ جاتا ہے۔ اس پر کوئی زبان بوجھ نہیں بلکہ بوجھ اس وقت بن جاتی ہے جبکہ خاندان کے بڑے لوگ آپس میں دوسری زبانوں کا تذکرہ حقارت سے کرنے لگتے ہیں۔ بچوں میں غیر محسوس طریقہ پر اس زبان کے خلاف تعصب پیدا ہوجاتا ہے۔ اس زبان کے سیکھنے سے دلچسپی باقی نہیں رہتی۔ اب وہ زبان امتحان کی خاطر پڑھتا ہے۔ اب رہا مادری زبان خود بخود صحن، مسجد اور مکتب میں پہنچ چکی ہے۔ مساجد کمیٹی کے اراکین قابل مبارکباد ہیں کہ وہ محلے اور قصبے کے بچوں کو عربی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو ذریعہ تعلیم سے ابتدائی جماعتوں کا بھی انتظام کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں یوپی کی دینی تعلیم کونسل نے گزشتہ تیس چالیس برس میں جو کام کیا ہے وہ سارے مسلمانوں کیلئے قابل تقلید ہے۔ اس کونسل نے سارے صوبے میں پانچویں جماعت تک اردو اسکولوں کا خانگی طور پر جال بچھا دیا ہے جہاں پر مذہبی تعلیم کے ساتھ پانچویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان طلبا کو ہندی میڈیم سرکاری اسکولوں میں چھٹی جماعت سے داخل کرا دیا جاتا ہے۔ بچے کی ابتدائی عمر میں مادری زبان میں تعلیم کی وجہ سے تعلیم کی مضبوط بنیاد قائم ہوجاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بچہ مادری زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرتا ہے وہ دوسری زبانیں بہت تیزی سے سیکھ جاتا ہے اور پھر یہ طلبا آگے چل کر اپنے دین و ایمان سے اجنبی نہیں ہوجاتے۔
مختصر یہ کہ ہمیں ہوش و حواس کے ساتھ بے جا تعصب کو ختم کرکے اپنے بچوں کو علاقائی، قومی اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کی ترغیب دیں۔ اپنی مادی زبان کے تحفظ کیلئے حکومت سے زیادہ خود اپنی تنظیموں پر بھروسہ کرکے پانچویں جماعت تک اردو میڈیم کے اسکول قائم کرلیں پھر اس کے بعد سب دروازے کھلے ہیں۔ خود مسلم تنظیمیں علاقائی زبانوں کے اسکول کھولیں تو اچھا ہے۔
رابطہ۔9831439068
[email protected]