سال 2021اپنی تلخ و شیریں یادوں کے ساتھ ہم سے رخصت ہوگیا اور ہم نئے سال میں داخل ہوگئے ۔2020کی طرح سالِ رفتہ بھی عالم انسانیت سے آزمائشیوں سے بھرا رہا اور اگر یہ کہیں کہ امسال بھی دکھتی انسانیت کو سکون کے چند پل میسر نہ ہوئے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ 2020کی طرح 2021میں آدم خور کورونا وائرس شکلیں بدل بدل کر انسانیت کا پیچھا کرتا رہا اور ویکسین کی آمد کے باوجود تاحال دنیا اس وائرس سے نجات نہیں پاسکی ہے ۔بلا شبہ عالمی سطح پر کم وبیش سبھی ممالک نے اس وائرس کے خلاف اپنے سارے وسائل جھونک ڈالے تاکہ انسانی آبادی کا تحفظ یقینی بنا یاجاسکے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پہلے ڈیلٹا اور اسکے بعد اب اومیکرون نے دنیا کی ناک میں دم کرکے رکھا ہے۔گزشتہ روز ہی امریکہ میں کورونا وائرس کی ڈیلٹا اور اومیکرون اقسام سے چار لاکھ افراد متاثر ہوچکے تھے ۔
جہاں تک ہمارے ملک بھارت کا تعلق ہے تو یہاں بھی صورتحال کچھ خوش کن نہیں ہے ۔بلا شبہ 2021کے وسط نے ہم نے چین کی سانس لینا شروع کردی تھی کیونکہ کورونا معاملات میں کافی گراوٹ ریکارڈ ہوچکی تھی لیکن اب نہ صرف اومیکرون کے نئے معاملات ملک میں بتدریج بڑھتے چلے جارہے ہیں بلکہ گزشتہ دو دنوں کے دوران کورونا معاملات میں تشویشناک اضافہ کا رجحان دیکھنے کو مل رہاہے۔اس بات سے قطعی انکار کی گنجائش نہیںکہ ہماری حکومت نے دنیا کے سب سے بڑے ٹیکہ کاری پروگرام کو تاحال کامیابی کے ساتھ چلایا اور18سال سے اوپرکی عمر کی غالب آبادی کو کورونا ویکسین کی دونوں خوراک پلائی گئیں تاہم یہ بھی سچ ہے کہ ابھی جہاں اس عمر کے زمرے میں ابھی بھی ایک بڑی تعداد کی ٹیکہ کاری مکمل نہیں ہوچکی ہے وہیں 18سال سے کم عمر کے لڑکوں اور بچوں کے کورونا سے تحفظ کا ابھی تک کوئی بندو بست نہیں کیاگیا ہے اور 3جنوری سے 15سے17سال کی عمر کے لڑکوں و لڑکیوں کو ویکسین کی پہلی خوراک دی جانے والی ہے تاہم اس سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے ۔
اس صورتحال میں 2022کا سورج ہم پر ایک پریشان کن ماحول میں طلوع ہوگیا ہے ۔انسان ہر نئی صبح کا آغاز امید کے ساتھ کرتا ہے اور اسی طرح ہر نئے سال کا استقبال بھی اسی امید کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ یہ سال ہمارے لئے خوشیوںاور شادمانیوں کی نوید لیکر آئے لیکن ہم جس آزمائشی دور سے فی الوقت گزر رہے ہیں،اُس میں اطمینان اور شادمانیوں کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے ۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وائرس ہمارے بیچ ہی موجود ہے اور شکلیں بدل بدل کر ہم پر حملہ آور ہورہا ہے ۔ایسے میں ہمیں قطعی بے پرواہ ہونے کی ضرورت نہیںہے ۔ہمارا واسطہ ایک ایسے نظر نہ آنے والے دشمن سے پڑا ہے جو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو بھی گھٹنوں پر لاچکا ہے اور اپنی جاہ و حشمت اور ٹیکنالوجی پر غرور کرنے والے ممالک بھی اسکے سامنے سرینڈر کرچکے ہیں۔دیکھیں تو یہ قدرت کی طرف سے ایک ایسی آفت ہے جس سے نمٹنا اور خلاصی پانا انسان کے بس کی بات نظر نہیں آرہی ہے ۔ا س صورتحال میں صرف حکومتی اقدامات پر تکیہ کئے بیٹھنا دانشمندی نہیں ہے ۔ریاست کیلئے ایک ایک فرد کی سلامتی مقدم ہے لیکن جب ایسے خونخواردشمن سے پالا پڑا ہو تو ریاست بھی اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے باوجود اُس وقت تک کچھ نہیں کرسکتی جب تک عوام کا مکمل تعاون شامل ِ حال نہ ہو۔
کورونا کے حوالے سے نئی نئی تحاقیق اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ یہ وائرس ہر نئے اوتار میں خونخوار سے خونخوار تر ہوتا جارہا ہے اور اگر ہم عالمی ادارہ صحت کی آج کی تنبہ پر یقین کریں تو ڈیلٹا اور اومیکرون وائرس دوہرا خطرہ ہیں جو ڈبلیو ایچ او کے مطابق سونامی کی طرح انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔جب سائنسی تحقیق اس نوعیت کی ہو تو خوش فہمی میں مبتلا رہنے کی کوئی گنجائش نہیں بچتی ہے بلکہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی حفاظت کی ذمہ اری خود لیں اور حکومت پر اضافی بوجھ ڈالنے سے گریز کریں۔بلا شبہ صد فیصد ٹیکہ کاری ناگزیر ہے لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی اقسام ٹیکہ کاری شدہ افراد کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ایسے میں صرف بچائو اور احتیاط ہی واحد علاج نظر آرہا ہے اور یہ احتیاط بھی بالکل آسان ہے ۔
نئے سال کے آغاز میں ہمیں یہ عہد کرلینا چاہئے کہ ہم نے اس کورونا وائرس کو ہرانا ہی ہے ۔جب ہم یہ عہد کر لیں گے تو ہم احتیاطی اقدامات پر عمل بھی شروع کریں گے ۔اس ضمن میں جہاں نئے سال میں فیس ماسک کے استعمال کو ہمیں اپنا معمول بنانا چاہئے وہیں سماجی دوری کے رہنما اصولوں کو بھی قطعی صرفِ نظر نہیں کرنا چاہئے ۔اسکے علاوہ حفظان صحت کا خیال رکھتے ہوئے صفائی ستھرائی بھی اس جنگ میں ہمارا بہت بڑا دفاع ثابت ہوسکتی ہے ۔اگرہم انہی تین چیزوں پر عمل کرتے ہیں تو یقینی طور پر 2022میں ہم کوروناوائرس کو ہرا کر ایک بارپھر ایک پُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں اور اگر ہم نے لاپرواہی جاری رکھی تو اس کا بھار ی خمیازہ بھی بھگتنا پڑسکتا ہے۔